خواہشوں کے جنگل میں

Posted on at


خواہشوں کے جنگل کا راستہ اس سراب کی مانند ہے کہ اگر اس کا سفر شروع کیا جاۓ تو اس راستے پہ آپ کو سواۓ خار دار جھاڑیوں کے کچھ نہیں ملے گا۔ایسا سراب جو دور سے دیکھنے پر اتنا حسین اور دلکش دکھائی دیتا ہے کہ ہم اس سفر کی مسافت اور تھکن تک کو کسی کھاتے میں نہیں لیتے اور اس بے منزل کے راستے پر ہی چلتے جاتے ہیں۔چاہے اس راستے میں آبلہ پائی کے کتنے ہی عذاب ہمارا مقدر کیوں نہ بن جاۓ۔


ہماری خواہشوں نے ہمارے نفس کو اتنی بری طرح سے جکڑا ہوا ہے کہ ہم خود اپنے مقصد حیات سے بھی دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ خواہشوں کے جنگل کا سب سے خوشنما پودا لفظ ”کاش ” ہے۔یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے گرد ہماری پوری زندگی بھٹکتی پھرتی ہے کسی بھی چیز پر مطمئن یا کسی بھی فیصلے کا الٹا نتیجہ اس لفظ کو جنم دیتا ہے۔ اور یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جو کاش کہ اگر حل ہو سکتا تو بہت سے لوگ بہت سکون کی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔



ان خواہشوں کے جنگل میں میں خود ایسا بھٹکا کہ اپنی خونی رشتوں کی قدرو منزلت بھی بھول گیا تھا۔ مجھے رشتوں کی قدر اس وقت آئی جب وقت گزر چکا تھا۔


ابھی زندگی نے ابتدا ہی کی تھی کہ خواہشات کا بیج میرے من میں بو دیا گیا۔ آنکھ کھولی بھی نہ تھی کہ میری زبان چلی بھی نہ تھی کہ میری پہلی خواہش نے سر اٹھایا۔ یہ خواہش ماں سے ماں کا حق ادا کرنے کی تھی۔ جوں جوں دن گزرنے لگے میری خواہشات نت نیا روپ دھارتی چلی گئیں۔پھر جوں جوں لفظوں کی طاقت مجھے ملنے لگی میری خواہشات واضح ہونے لگیں۔



میری تمام تر خواہشات کا منبع میرا پیٹ تھا۔ مجھے بھوک دودھ اور پیاس کے سوا کسی اور چیز سے غرض نہ تھی۔


ماں کی خوشبو اور باپ کا لاڈ پھر میری ترجیح بننے لگا۔مجھے اپنی ہی بہن بھائیوں سے صرف اس بات پر چڑ ہونے لگی کہ وہ بھی ایسی ہی خواہشات رکھتے تھے۔ وہ بھی ماں باپ پر اپنا حق جتاتے تھے۔ جبکہ مجھے لگتا تھا کہ میرے ماں باپ پر صرف میرا حق ہے۔ اور اس طرح مجھے احساس ہی نہ ہوا اور میں خواہشات کے جنگل میں بھٹکنے کے لیئے نکل پڑا۔




About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160