خواہشوں کے جنگل میں(۲)

Posted on at


جوں جوں عمر بڑھنے لگی زندگی کم اور موت قریب آنے لگی میری خواہشات میں شدت آتی چلی گئی۔عمر کے ابتدائی حصے میں پیدا ہونے والی خواہشات قدرے نرم،مہزب اور سادہ تھیں۔ میں نے بڑے ہو کر ڈاکٹر،پائیلٹ، فوجی یا انجینئیر بن کر قوم کی خدمت کرنی تھی۔پر جیسے جیسے میں دنیا کی حقیقت سے آشنا ہوا میری خواہشات میں وحشی پن آنا شروع ہو گیا۔

اب میں فوجی،پئیلٹ، انجینئیر یا ڈاکٹر اس لیئے بننا چاہتا تھا کہ دولت،سہولیات و آسائشیں زیادہ میسر ہوں گی۔ انہی خواہشات میں سے ایک خواہش انجینئیر بننے کی تھی۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیئے میرے والدین نے مجھے ہر وہ سہولت میسر کی جس کی مجھے ضرورت پڑ سکتی تھی۔ محنت و جستجو میرے ہمسفر بنے اس منزل کی تلاش میں۔ خدا کے فضل و کرم سے ایف ایس سی میں اتنے مارکس حاصل کر لیئے کہ انٹری ٹیسٹ لینے کا اہل ہو گیا۔ اب اس ٹیسٹ کو پاس کرنے کے لیئے کسی اکیڈمی سے ٹیوشن لینی تھی۔ میری اس خواہش کی قیمت ۳۰۰۰۰ تھی۔

 میرے والدین نے بغیر کسی تردد کے تیس ہزار میری ہتھیلی پر رکھے اور کہا جاؤ میرے بچے محنت کرو اور اس امتحان کو پاس کرو۔اس روز میں نے اپنے آپ سے عہد کیا۔ میں جس دن کمانے کے قابل ہوا اور جس دن مجھے تنخواہ ملے گی میں سب سے پہلے اپنے والدین کے تیس ہزار لوٹاؤں گا۔ ٹیسٹ کی تیاری میں دو تین ماہ کے لیئے زندگی سے غائب ہونے کی کچھ خبر نہ ہوئی۔ٹیسٹ دیا اور پاس بھی ہو گیا۔ میری اس کامیابی پر میرے والدین خوش بھی تھے اور پریشان بھی  خوشی کا سبب ان کی اولاد کی کامیابی تھی اور وجہ فکر یونیورسٹی کی فیس،مہنگی کتابیں اور ضروریات زنگی تھیں۔

 مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ میرے والدین پریشان کیوں ہیں۔ میں اپنی خواہش کی تکمیل کی نزدیکی پر اتنا خوش تھا کہ مجھے اپنے گھر والوں کی تکلیف کا اندازہ ہی نہیں رہا۔



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160