ادب اور معاشرہ

Posted on at


 


ادب اور معاشرہ لازم و ملزوم ہیں۔ ادب معاشرے پر اور معاشرہ ادب پر جو اثرات مرتب کرتا ہے اس سے ہر شخص پوری طرح آگاہ ہے۔ حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے اور واضح کیا ہے کہ برا معاشرہ پہلے برے شاعر کو جنم دیتا ہے۔ وہ معیار جو ایک مثالی معاشرے کی جان ہوتے ہیں ان میں تنزل آ جاتا ہے اور وہ معیار جو معاشرے کو زہر آلود کرتے ہیں انہیں زندگی مل جاتی ہے اور یوں معاشرے کے ساتھ ادب کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ ادب برائے فن ہو یا ادب برائے زندگی ہر دو کا تعلق بلا واسطہ یا بالواسطہ معاشرے سے ہوتا ہے۔ دونوں نظریے معاشرے سے جنم لیتے ہیں اور معشرے ہی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ادب میں جتنے ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار یا شاعر گزرے ہیں سب معاشرے حالات اور وقت کے پیداوار ہیں اور کوئی فن کار معاشرے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان کے شہ پاروں میں معاشرے کی تصویریں چلتی پھرتی، بولتی چالتی، دکھائی دیتی ہیں۔ ادب چونکہ معاشرے کا عکاس ہوتا ہے اس لیے جب معاشرے میں عملی یا فکری تبدیلی آتی ہے تو ادب بھی اپنا راستہ تبدیل کر لیتا ہے۔


 


 اردو ادب کو لیجئے، داستان کا ایک بھرپور دور تھا۔ اور یہ دور ایسا تھا کہ لوگوں کے مسائل کم تھے۔ شہر اتنے زیادہ آباد نہ تھے۔ لوگ گاؤں اور دیہات سے کبھی کبھی شہر کا رخ کرتے ہیں۔ صنعتی انقلاب برپا نہیں ہوا تھا۔ مشینی دور نے انسانوں کے مسائل میں اضافہ نہیں کیا تھا۔ ایسے حالات میں لوگ داستانیں بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ کیونکہ ان کے پاس وقت تھا۔ بعد ازاں یہ صورت حال نہ رہی۔ صنعتی اور مشینی انقلاب نے لوگوں کے مسائل میں اضافہ کر دیا۔ معاشرے کی اقدار میں تبدیلی رونما ہوئی۔ وقت کی نبض تیز چلنے لگی۔ چنانچہ داستان کی جگہ ناول نے لے لی جو داستان میں کم ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت کے معاشرے اور حالات سے نہایت قریب تھا۔ چنانچہ واضح تھا کہ معاشرے کی تبدیلی جس نوع کی ہو گی۔ ادب اپنی وہی صورت اختیار کرے گا۔ موضوعات کے علاوہ ادب اپنی ہیت بھی تبدیل کر جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک فرق ضرور ہے وہ یہ کہ بڑا ادیب معاشرے کے پیچھے نہیں چلتا بلکہ معاشرے کو اپنے پیچھے چلاتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ معاشرے کے صحت مند ذہن رکھنے والے لوگ اچھی ادب کے ضامن ہوتے ہیں جب کہ مایوس اور گٹھیا ذہن رکھنے والے گٹھیا ادب کی پرورش میں مدد دیتے ہیں۔


 


ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد کا دور دیکھ لیں۔ مجبوری اور کسمپرسی کا عالم تھا۔ کسی کی مال و جان محفوظ نہ تھی۔ افراتفری کا عالم تھا۔ معاشرے میں غم کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ چنانچہ اس دور کا ادب بھی غم کا مثال بن کر رہ گیا ہے۔ میر، درد اور دیگر شاعروں کے کلام میں غم کی تصویروں کے ساتھ ساتھ تصوف کا رنگ نمایاں ہے۔ یہ حالت دلی میں نمایاں ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ اس علاقے میں زیادہ تھا۔اس کے برعکس لکھنؤ کا ماحول مختلف تھا۔ سیاسی اختلاف ہونے کے باعث وہاں معاشرے کی اقدار نیست و نابود تو ہو رہی تھیں۔ مگر اس کا انداز مختلف تھا۔ بادشاہوں، حکمرانوں اور نوابوں کی نااہلی اور عیش پرستی نے ماحول کو ‘‘عیش’’ کی قدر دی۔ جب حالات بگڑے تو ایسی شاعری نے جنم لیا جسے شاعری کہنا بھی شائد گناہ ہو۔ کیونکہ ادب محض معاشرے کا عکاس نہیں۔ بلکہ ادب خیر بھی ہے جو ادب تخریب کا پہلو رکھتا ہو یا جس ادب میں کسی خاص طبقے کی نمائندگی ہو وہ ادب میں داخل نہیں ہے۔


 


۱۸۵۷ء کے بعد کا ادب لیجیے سب کا سب معاشرے اور سوسائٹی کا ترجمان ہے۔ نذیر احمد کے تمام ناول معاشرے کی اصلاح کا پہلو رکھتے ہیں۔ شبلی نے لوگوں کو عقل اور شعور کے راستے دکھائے اور سب سے بڑھ کر سر سید احمد خان کی تمام تحریریں معاشرے کی ترجمان ہیں۔ ان کے تمام موضوعات معاشرے سے لیے گئے ہیں اور ان میں اس وقت کا معاشرہ چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ غالب کے خطوط جنہیں اردو ادب میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور جنہوں نے اردو نثر میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا۔ معاشرہ کے ترجمان ہیں۔ ان کے خطوط میں ان کے ماحول کے سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی حالات کھل کر سامنے آتے ہیں۔


 


لسان العصر اکبر الہ آبادی کی شاعری کا مطالعہ کر لیجیے۔ معاشرہ، سوسائٹی اس کے عادات و اطوار۔ اس کے خیالات غرض عملی اور فکری مناظر بکھرے پڑے ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری دیکھیے، تمام کے تمام معاشرے اور ملک و قوم کی ترجمانی کرتی ہے۔ ۱۹۴۷ء کے حالات انتہائی تکلیف دہ تھے۔ ہجرت، لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازارگرم تھا۔ چنانچہ ۱۹۴۷ء کے بعد کا ادب انہی موضوعات کے گرد گھومتا ہے۔ ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت جنگ میں ترانے لکھے گئے۔ پرجوش نظمیں لکھی گئیں۔ اس کے بعد ۱۹۴۷ء کے سانحہ پر بھی جو ادب تخلیق ہو اس میں ماحول کی بے بسی، بے چارگی غم کی فضا چھائی ہوئی ہے۔


 


یہ تو تھا جدید دور کا تجزیہ آیئے دیکھتے ہیں کہ اس سے پہلے معاشرے نے ادب پر کیا اثرات چھوڑے یا ادب نے معاشرے کی تصویر کیسے کھینچی اور اس پر معاشرے کا کیا اثر ہوا۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے بادشاہت کا دور تھا۔ بادشاہ سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا۔ بادشاہ کی خوشنودی زندگی اور ناراضگی موت کی مترادف تھی۔ ایسے حالات میں اس کے سوا کوئی کیا کر سکتا تھا کہ بادشاہ کی شان و قصید لکھے چنانچہ ایران ہو یا ہندوستان قصیدہ بادشاہی نظام میں ہی زندہ رہا اور اس دور میں اس نے ترقی کی پھر جب اس نظام میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ بادشاہ عملاً بادشاہ نہ رہے۔ بلکہ ذہنی طور پر بادشاہ بن کر رہ گئے۔ تو اس دور میں قصیدے میں مبالغہ اور جھوٹ شامل ہوا۔ اس موضوع پر حالی نے سیر حاصل بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ ادب میں جھوٹ کس طرح داخل ہوا اور اس نے معاشرے اور زبان کو کون کون سے نقصانات پہنچائے غرض ادب نے معاشرے سے اور معاشرے نے ادب سے تعلق نہیں توڑا۔ جس ادب نے گھٹیا اقدار سے تعاون نہ کیا وہ عظیم ادب ہو گیا اور جس نے تعاون کیا وہ گھٹیا ہو کر رہ گیا۔ مگر دونوں صورتوں میں تعاون قائم رہا۔


 



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160