انوکھی شرارت

Posted on at


یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرے میٹرک کے امتحانات ختم ہو چکے تھے اور میں بلکل فارغ رہتی تھی. جبکہ کالج لگنے میں ابھی کافی وقت تھا.ابو کاروبار زندگی چلانے کی غرض سے سعودی عرب چلے گئے تھے اور وہ سال میں ایک ادھ بار پاکستان آتے تھے جبکہ امی اسکول ٹیچر تھیں.وہ صبح اسکول جاتی اور ٣ ٤ بجے گھر واپس اتی تھی.چونکہ میں سب سے بری تھی اس لئے گھر کا سارا کام میں خود کرتی تھی اور سارا دن گھر پر اکیلی رہتی تھی


محلے میں ایک ہی سیھلی تھی جو میری ہم جماعت تھی اور ہم دونوں کو چھٹیاں تھی اس لئے وہ کبھی کبھی میرے گھر آ جاتی تھی اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی بھی اس کے ساتھ آ جاتا تھا اور ہماری باتوں میں شامل ہو جاتا تھا کبھی کبھی ہماری گفتگو جنوں بھوتوں تک پہنچ جاتی تھی اور میری دوست کے چھوٹے بھائی کو بہت اچھے سے پتا تھا کہ ہمیں  جنوں بھوتوں سے کافی ڈر لگتا ہے. 



ایک دن اسی طرح ہم جنوں بھوتوں کی باتیں کر رہے تھے اور ظفر (میری دوست کا بھائی) سب باتیں سن رہا تھا کچھ دیر بعد دونوں بہن بھائی اٹھ کے چلے گئے اور  ان کے جانے کے بعد میں نے دروازے کو کنڈی لگائی اور خود لیٹ گی


اس وقت دوپہر کا ایک بج رہا تھا کہ دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا.میں نے اٹھ کے پوچھا کہ کون ہے؟ لیکن مجھے کوئی جواب نہ ملا اس دوران دروازہ مسلسل کھٹکتا رہا اور پھر میں نے حوصلہ کر کے دروازہ کھول کے باہر جھانکا لیکن باہر کوئی نہیں تھا.میں نے دروازہ بند کر لیا کچھ دیر بعد پھر کسی نے دروازہ کھٹکٹایا پر جب میں نے پھر کھولا پر کوئی نہیں تھا تین چار دفع پھر یہ ہی سب ہوا تو مجھے ڈر لگنے لگا اور میں نے ساتھ والے پورشن سے اپنے چچا چچی کو  زور زور سے آوازیں دینا شروع کر دی وہ لوگ بھی تیزی میں ڈھورتے ہوئے ہے کہ کیا ہو گیا ہے جب میں نے انھیں سب ماجرہ بتایا تو چچا ایک دم بولے کہ کہیں کوئی جن تو نہیں کھٹکتا رہا ان کا یہ کہنا میں نے دیوار پھلاگی  اور ان کے گھر چلی گی 



کافی دیر تک دروازہ ایسے ہی  بجتا رہا پر کھولنے پر کوئی نہیں ہوتا تھا ڈر کے مارے میری حالت خراب  ہونے لگی آخر کچھ دیر بعد چچا نے اپنی طرف کا دروازہ کھول کے باہر دیکھا تو ان کی نظر دروازے پر پڑی اور وہ دیکھتے ہی رہ گئے دروازے کے کنڈے کے ساتھ ایک ڈوری بندھی ہوئی تھی اور اس کا دوسرا سرا باندھنے والا اپنے ہاتھ میں لیا دور بیٹھا تھا وہ وہاں  سرا ہلاتا اور یہاں کنڈی بجتی چچا نے ڈور ہاتھ میں لی اور اس ک ساتھ چلنے لگے کچھ دور جا کے انھیں پتا چلا کہ ڈور کا سرا ایک بچے کے ہاتھ میں ہے اور وہ بچا ظفر تھا  چچا نے اسے پکڑا اور اپنی جوتی اتار لی اور پھر ظفر کا جو حال ہوا نہ ہی پوچھیں 



About the author

160