معصوم

Posted on at


کیا دور آ گیا ہے جس کو دیکھو وہی سر، سر گم اور سنگیت کا متوالا ہے، کانوں میں ہیڈ فون پھنساۓ اپنے ہی ترنگ میں مگن جھوم رہا ہے۔ گھر سے روانہ ہوتے ہوۓ میں نے بھی دیکھا دیکھی اپنے موبائل کے ساتھ ہینڈ فری لگائی کانوں میں ہیڈ فون کے سپیکر ایڈ جسٹ کئیے اور پلے کرنے کے بعد اپنی بائیک سٹارٹ کی اور ہواؤں کے دوش پر محو سفر ہو گیا۔ دفعتاً کانوں میں ایک مانوس و معروف ترانے کی آواز گونجی۔

” میرے زندان کے ساتھ کہیں تم بھول نہ جانا”

اذیت کے کٹہروں میں جو ہم نے دن گزارے تھے”

جوں جوں ترانے پر غور کرتا گیا۔ بائیک کی رفتار کم ہوتی گئی اور صرف ۲۰ کلو میٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی،اب موٹر سائیکل رینگ رہی تھی جبکہ میری آنکھوں نے تیز رفتاری کے عالم میں گرم گرم آنسوؤں کی  رم جھم رم جھم بارش برسانا شروع کر دی تھی۔ آنسو پلکوں کا مظبوط حصار توڑ کر شبنم کے چمکتے دمکتے موتیوں کی مانند،مگر تیز سیلاب کی طرح موسلا دھار بارش بن کر برس رہے تھے میرے دل کے آسمان کا موسم یکسر تبدیل ہو چکا تھا۔

دریاۓ راوی کے پل پر پہنچنے پر میں نے بائیک ایک سائیڈ پہ کھڑی کی،ترانہ بند کیا،چہرے کو رومال سے صاف کیا اور کچھ دیر اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کے بعد دوبارہ چل پڑا۔ آج میں وہ راز آپ کو بتا دوں جو مجھے صداقتوں کے پاسبان،عزیتوں کے نگہبان اور اخوتوں کے ترجمان ایک

امت مسلمہ کے کیسے کیسے قیمتی ہیرے اور گوہر پارے اپنے خون سے رقم کر رہے ہیںْ۔ ان کی اذیتوں اور تکلیفوں کا ہمیں کچھ علم بھی نہیں۔ ۱۶ سال کی بالڑی عمر میں لڑکیاں رنگین گلابی نیلے پیلے سپنوں کے تانے بانے بنتی ہیں۔ آئیڈیل کے حسین خواب دیکھتی ہیں۔اپنے روشن مستقبل کے سہانے محل تعمیر کرتی ہیں۔اور کچے گھروندوں کی طرح مسمار کر کے نت نئے تخیلات پر مبنی نئے گلشن آباد کرتی ہیں۔



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160