عورت کی آزادی یا فحاشی کا ذریعہ

Posted on at


آج سے ہزاروں سال پہلے جسے ہم زمانہ جاہلیت کہتے ہیں۔ اس میں عورت کے ساتھ ہونے والے ظلم ، جبر اس کے حقوق کی پامالی ہمیں تاریخ ان سب باتوں کی گواہی دیتی ہے۔ پھر اسلام آیا اور اس نے ایک حد قائم کر دی۔ ہمیں بتا دیا گیا کہ عورت کی کیا اہمیت ہے اور اس کے حقوق کے بارے میں بتا دیا گیا۔ اس کے بعد ہم نے آہستہ آہستہ ترقی کی طرف جانا شروع کیا۔ تو بات یہاں تک پہنچ گئی کہ عورت کو مکمل طور پر آزادی ہونی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں خود مختاری بھی کہہ سکتے ہیں۔


تو کیا ہمیں جو اسلام نے بتایا اس میں عورت کی آزادی نہیں ہے؟ جو کہ اب عدالتوں نے درخواستیں منظور کی ہیں انہی میں عورت کی آزادی ہے۔ گھر کی چار دیواری کے اندر رہنے کو وہ عورت کی قید اور باہرنکلنے کو آزادی کہتے ہیں۔ عورت چاہے تو اپنی مرضی سے جس سے چاہے شادی کرے، دل کرے تو وہ پردہ کرے۔  چاہے تو وہ اپنے سر پر چادر بھی نہ اوڑھے۔ چاہے تو وہ بھی مرد حضرات کی طرح سرے عام بازاروں  میں گھومے۔ اسے گھر سے باہر جانے کے لئے اپنے شوہر، ماں،باپ کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔


یونیورسٹی، کالجوں میں وہ اپنے پسند کے لڑکے کے ساتھ اپنے تعلقات رکھے۔ کیا یہی سب عورت کی آزادی ہے کیا ہم صرف اتنا ہی سمجھ سکے ہیں اپنے دین اسلام کو۔ اسلام جبر کا نام نہیں ہے۔ لیکن ہر چیز ایک دائرے میں رہ کر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ میں یہ کہنے میں ذرہ برابر بھی دقت محسوس نہیں کروں گا کہ یہ آزادی نہیں بلکہ فحاشی کا ذریعہ عام ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بد زنی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ جو ہماری آنے والی نسلوں کو مکمل تباہی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ایسا ذہن بنا رھے ہیں ہمارے بچوں کا کہ وہ بڑوں کی باتوں کے خلاف جائیں۔ ہمارے دین اسلام میں عورتوں کے جو حقوق دیئے ہیں۔ وہی اس کی آزادی ہے۔ تاریخ گواہ ہے اس بات کی آج سے پہلے مطلب دین اسلام سے پہلے کسی بھی مزہب نے عورت کے اتنے حقوق مقرر نہیں کیے جتنے دین اسلام نے کیے ہیں۔ تو عورت کھلے سر کے علاوہ ڈھکے ہوئے سر میں ہی محفوظ ہے۔ بازاروں میں گھومنے کے بجائے گھر کی دیواری میں ہی خود کو محفوظ اور اپنی آزادی سمجھے۔


 


  عدالتوں میں جانے سے آزادی نہیں ملے گی بلکہ صرف یہ باتیں فحاشی کا ذریعہ بنے گی۔



160