ایک سماجی کارکن کا اسلامی معاشرے میں کیا کردار ہونا چاہیے؟؟

Posted on at


اسلامی معاشرہ کی فلاح و بہبود اور سماجی خدمات انجام دینے والے کارکن کو جن بنیادی و اخلاقی خوبیوں کا حامل ہونا چاہیے۔ ان میں سے چند ایک کا تذکرہ مفید ہو گا۔

 

ایک سماجی کارکن کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس کام کا آغاز کرے، اسے دل جمعی اور لگن سے مکمل کرے، بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ وقتی جوش کے تحت کسی کام کا آغاز تو کر لیا جاتا لیکن راستے کی مشکلات اور رکاوٹوں کے سبب پہلے ہی مرحلہ میں مایوس ہو کر ہمت ہار دی جاتی ہے۔ ایک اچھے سماجی کارکن کی یہ بنیادی صفت ہونی چاہیے کہ وہ کام کے آغاز سے قبل اس کے تمام تر روشن اور تاریک پہلوؤں اور نشیب و فراز کا جائزہ لے، اس کے بعد جب وہ کام کا آغاز کرے تو پھر اسے استقامت اور تحمل و بردباری کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اس کام میں برکت اور کامیابی کے لیےاللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا رہے۔

 

سماجی کارکن کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی کام کی انجام دہی کے لیے باہمی مشاورت کو لازم ٹھہرائے اور پھر حکمت وتدبیر کے ساتھ اپنے مشن کی تکمیل کے لیے تمام تر صلاحیتوں کو صرف کرے۔ سعی پیہم کے نتیجہ ہی میں کامیابیاں دم چوما کرتی ہیں۔ یہ فطری امر ہے کہ جب ایک سے زیادہ افراد مل کر کسی کام کو انجام دیں گے تو مزاج اور طبیعتوں میں عدم مطابقت کی وجہ سے سرد و گرم واقعات سے واسطہ پڑے گا۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپس میں اخوت و محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے۔

 

سماجی کارکن کے لیے جو چیزیں زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہیں ان میں کبر و غرور، نمود و نمائش، مزاج کی بے اعتدالی اور تنگ دلی شامل ہیں۔ ایک اچھے اور مثالی سماجی کارکن کو ہر لمحہ ان خرابیوں سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے ورنہ اس کی ساری محنت اور جدوجہد اکارت ہو جانے کا خطرہ ہے۔ یہ وہ ابتدائی اور بنیادی امور ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر ایک سماجی کارکن معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابیوں کو ختم کرنے کے لیے بہتر انداز میں کوشش کر سکتا ہے۔

 

اسلامی تعلیمات سے دوری، غفلت اور صدیوں تک ہندوؤں کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے مسلمانان برصغیر میں غیر محسوس طور پر وہ جاہلانہ رسم و رواج سرایت کر گئے ہیں جو ہندو معاشرے کا خاصہ ہیں۔ جہالت و ناخواندگی کی وجہ سے عام مسلمان اسلام کی معاشی و معاشرتی تعلیمات سے پوری طرح با خبر نہیں۔ اسلیے ہندو معاشرے کی رسمیں اور طور طریقوں کی جڑیں ہمارے ماحول میں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ صدیوں سے مروج ان رسوم و رواج کی اصلاح کوئی معمولی کام نہیں ہے۔

If you want to share my any previous blog click this link http://www.filmannex.com/blog-posts/aafia-hira/2.

Follow me on Twitter: Aafia Hira

Thanks for your support.

Written By: Aafia Hira



About the author

Aafia-Hira

Name Aafia Hira. Born 2nd of DEC 1995 in Haripur Pakistan. Work at Bit-Landers and student. Life isn't about finding your self.LIFE IS ABOUT CREATING YOURSELF. A HAPPY THOUGHT IS LIKE A SEED THAT SHOWS POSITIVITY FOR ALL TO REAP. Happy to part of Bit-Landers as a blogger.........

Subscribe 0
160