(وجود مصطفیٰ احسان خداوندی(دوسرا حصہ

Posted on at


حضورؐ کی پیدائش سے پہلے دنیا پستی کا راستہ اختیار کر چکی تھی۔ کیا عرب اور کیا عجم عصیاں کے طوفان میں ہر جگہ بربادی کر رکھی تھی۔ شرک و کفر ان کا مقدر بن چکا تھا۔ حرم کعبہ جس کی بنیاد دنیا کی مشہور بت شکن حضرت ابراہیمؑ نے ڈالی اب اس ارض پاک میں تین سو ساٹھ بتوں نے اپنا اکھاڑہ جما لیا ہیل کا بت سقف حرم پر لٹکا خدائے قدوس کی عظمت و جلال کو چیلنج کر رہا تھا اور انسان تھا کہ چشمہ توحید سے سرابی کے بجائے کفر اور شرکت کا پیامبر بنا پھر رہا تھا۔


عرب  میں  جس  قدر  انسان  تھے  ان  سے  سو ا بت  تھے"


"یہ  خلقت  تھی   خدا  کی  اور  خلقت  خدا   کے  بت  تھے


 


یہ ستم دیکھ کر شمس و قمر نے آنکھیں بند کر لیں اور زمین نے ہر طرف تاریکیاں ہی تاریکیاں دامن میں بھر لیں لیکن وقت آیا کہ خدا تعالیٰ نے توحید کے نور سے تاریکی کا پردہ چاک کیا اور ۱۲ ربیع الاول بمطابق ۲۳ اپریل ۵۷۱ء منگل کی مبارک صبح کو آپ پیدائش ہوئی۔ آپؐ کی آمد پر زمین و آسمان پر نور کی چادر تن گئی۔ ہوا رقص کرتی ہوئی مرحبا یا سیدی مکی مدنی کے گیت گا رہی تھی۔ اور فضائے زمین شکرانے کی خوشبو سے معطر تھی۔ آپؐ کی اس دنیا پر آمد کو شاعر اپنے مخصوص انداز میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔


بصد     انداز   یکتائی    بغایت    شان      زیبائی"


"امیں   بن  کر   مانت  آمنہ   کی    گود    میں    آئی


 


آپؐ کی آمد پر سارا ماحول ایک نوید مسرت کی علامت تھا۔ اور ضعیفوں، بیواؤں، یتیموں، آفت نصیبوں اور غلاموں کو مبارک باد دیتے ہوئے تاثر دے رہا تھا۔ نبوت سے پہلے کا ایک واقعہ جو آپؐ کی کی صلح جوئی، امن پسندی اور حسن تدبیر کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک بار لوگوں کی کعبہ کی از سر نو تعمیر کے لیے باہم حصے تقسیم کر دیے۔ حجر اسود کے نصب کرنے کا موقع آیا تو اس شرف کو حاصل کرنے کے لیے تلواریں نیاموں سے کھینچ گئیں۔ عرب کے دستور کے مطابق دعویداروں نے خون سے بھرے پیالے میں انگلیاں ڈبو ڈبو کر جان لڑا دینے کی قسم اٹھائی۔ چار روز تک یہی جھگڑا رہا بالآخر ایک بزرگ نے یہ تجویز پیش کی کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے حرم کعبہ میں آئے وہی ثالث قرار پائے چنانچہ یہ رائے تسلیم کر لی گئی۔


 


حسن اتفاق سے سب سے پہلے حرم پاک میں آپؐ ہی پہنچے اس تجویز کے مطابق ہر چند یہ شرف تنہا آپؐ کا حصہ تھا تاہم آپ نے سب قبیلوں کو شریک شعادت کیا۔ آپؐ کی رائے کے مطابق ہر قبیلے نے اپنا سردار منتخب کیا۔ آپؐ نے چادر بچھا کر حجر اسود کو اس میں رکھا اور قبائل کے نمائندوں سے کہا کہ چادر کو اچھی طرح سے تھام کر اٹھائیں جب چادر مقام ابراہیم کے برابر آگئی تو آپؐ نے پتھر اٹھا کر نصب کر دیا۔ اس طریقہ و تدبیر سے ایک خونی جنگ ہونے سے رہ گئی اور تمام کام امن و آشتی کے سائے میں ہوا۔


 



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160