اسلامی معاشرہ اور جاہلانہ رسم و رواج

Posted on at


ہمارے معاشرے میں زندگی کے ہر شعبے میں جاہلانہ رسم و رواج کو بالا دستی حاصل ہے۔ ان کے خلاف آواز بلند کرنا اور اصلاح کی غرض سے کام کرنا جو ئے شیر لانے سے کم مشکل نہیں۔ ہمارے ہاں صرف شادی بیاہ کی رسم و رواج کو لے لیا جائے تو سر چکرانے لگتا ہے کہ اصلاح احوال کیسے ہو پائے گی۔ نکاح سنت نبوی ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور کی طرح بیشتر اسلامی ممالک میں اب بھی ذات پات کی تمیز کے بغیر روپے پیسے اور جہیز جیسی لعنت کے بغیر مرد اور عورت نکاح کے مقدس رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں بیٹی یا بیٹے کی شادی ایک انتہائی مشکل کام کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

 

ایک سماجی کارکن کا کردار یہ ہنا چاہیے کہ وہ شادی بیاہ کی فضول رسموں کے خاتمے کا آغاز اپنے گھر سے کرے تاکہ وہ موثر طریقے سے معاشرے میں موجود ان جاہلانہ رسوم و رواج کے خاتمے کے لیے جدو جہد کر سکے۔

جاہلانہ اور فضول رسوم و رواج شادی بیاہ پر ہی نہیں بلکہ رنج و غم کے مواقع پر بھی لوگوں کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ایک غریب شخص کے ہاں ماتم ہو جائے تو جہاں وہ ذہنی و قلبی طور پر شدید صدمے سے دو چار ہوتا ہے، وہی جاہلانہ رسوم و رواج کے باعث یہ غم اس کے لیے مالی طور پر غیر معمولی صدمے کا بوجھ کا باعث بنتا ہے۔ ایک سماجی کارکن کا فرض اور ذمہ داری یہ ہے کہ عوام کی ان جاہلانہ رسوم سے جان چھڑائے اور انہیں اسلام کی روشن تعلیمات سے آگاہ کرے تاکہ رنج و الم کے مواقع پر لوگ اسلامی تعلیمات پر عمل کر کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی ناراضگی سے بچ سکیں۔

 

یہی اسلامی تعلیمات ہمیں اور ہمارے معاشرے کی جاہلانہ رسم و رواج کو ختم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں جس پر ہم سب کو عمل کرنا چاہیے۔ ہمیں ہمارے معاشرے کو دوسرے مذاہب کی رسم و رواج پر فوقیت نہیں دینی چاہیے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی کا رہن سہن اور رسم و رواج کو اپنانا چاہیے۔ سب سے اہم اور ضروری کام جس کا اسلامی معاشرے میں آج کل بہت عمل دخل ہے یعنی جہیز جیسی لعنت۔

 

ایک سماجی کارکن کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اسلامی معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کے رسم و رواج کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کرے۔ اور اسی طرح کی دوسری جاہلانہ رسم و رواج کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔ ہم پر بھی لازم ہے کہ اسلامی معاشرے سے اس جاہلانہ رسوم و رواج کو ختم کرنے کے لیے ایک سماجی کارکن کا ساتھ دیں اور اسلامی معاشرے سے ان برائیوں کو جڑ سے نکال پھینکیں۔

If you want to share my any previous blog click this link http://www.filmannex.com/blog-posts/aafia-hira/2.

Follow me on Twitter: Aafia Hira

Thanks for your support.

Written By: Aafia Hira



About the author

Aafia-Hira

Name Aafia Hira. Born 2nd of DEC 1995 in Haripur Pakistan. Work at Bit-Landers and student. Life isn't about finding your self.LIFE IS ABOUT CREATING YOURSELF. A HAPPY THOUGHT IS LIKE A SEED THAT SHOWS POSITIVITY FOR ALL TO REAP. Happy to part of Bit-Landers as a blogger.........

Subscribe 0
160