پاکستانی نظام تعلیم اور عوام کی ذمہ داریاں

Posted on at


اگر تعلیم کی بات کی جاۓ تو ہم اپنے چاروں اطراف میں یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سے ملک تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دے کر اپنے ملک میں تعلیم کی شرح میں اضافہ کر رھے ہیں۔اور اسی طرح ہمارے پیارے ملک پاکستان بھی ان میں ملکوں کی فہرست میں شام ہےجو کہ تعلیم کیلۓ بہت کام کر رھے ہیں ۔اگر باقی ملکوں کی نسبت پاکستانی تعلیم کی شرح کو دیکھا  جاۓ تو اس وقت پاکستان میں تعلیم کی شرح ۵۷ فیصد ہے۔جن میں تقریبا ۷۰ فیصد مرد ہیں اور ۴۰ فیصد خواتیں ہیں ۔



اس کی بڑی وجہ پاکستان کی دیہی آبادیاں ہیں اگر ہم بڑے شہروں کی تعلیم کی شرح کو دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ شہروں میں تعلیم کی شرح ۹۰ فیصد سے اوپر ھی ھے مگر جیسے جیسے پسماندہ علاقوں کی طرف دیکھیں تو وھاں ہم یہ دیکھیں گے کہ تعلیم کی شرح ۳۰ فیصد سے بھی کم ہوکر رھ جاتی ہے۔پاکستان میں اس وقت تقریبا ۶۰ فیصد پرائمری،۲۰ فیصد مڈل اور تقریبا 10 فیصد ھائی سکول اور ایک ہی فیصد ھائیر سکینڈری سکول اور تقریبا اتنے ہی کالج بھی ہیں اور ٹیکنیکل ٹریننگ والے ادارے تو بھت ہی کم تعداد میں ہیں



اور یونیورسٹییاں بھی ایک فیصد سے کم ہیں اور تقریبا ۴ فیصد دینی ادارے ہیں جو کہ تعلیم کیلۓ کام کر رھے ہیں


پاکستاں میں تعلیم کیلۓ دو طریقے ہیں ایک تو حکومت مہیا کرتی ہے اور دوسرا پرائیویٹ ادارے جو کہ مختلف سکول کالج اور یونیورسٹیاں چلا رھے ہیں۔ یہ وہ سب حقائق ہیں جن کو جان کر پتا چل رھا ھےکہ پاکستان میں تعلیم کیلۓ کام ہو رھا ھے۔



مگر کیا یہ ادارے چاھے حکومتی ہوں یا پرائیویٹ  کہ وہ جس مقصد کیلۓ بناۓ گۓ ہیں کہ یہ اس مقصد کو پورا کرنے کیلۓ کام کر رھے ہیں یا نہیں۔


کافی عرصے سے پاکستان کے بننے والے بجٹوں میں تعلیم کیلۓ صرف ۲ فیصد مختص کیا جاتا تھا، جو کہ بہت  کن تھا مگر پچھلے ۳ یا ۴ سال سے اس کو بڑھا دیا گیا ھے۔


مگر سوال پھر بھی ان اداروں کی کارکردگی کا  ھے کہ آیا وہ کیا مہیا کر رھے ہیں اگر شہروں کی بات کی جاۓ تو وھاں پر پرائیویٹ سیکٹر کو ہم تسلی بخش قرار دے سکتے ہیں مگر اگر دیہاتوں کی طرف یا قصبوں کی طرف دیکھا جاۓ تو حالت ابتر ہی نظر اتی ہے۔ایک تو معیار تعلیم بہت خراب اور اسکے ساتھ ساتھ بہت کم تعداد سکولوں اور کالجوں کی دیہی علاقوں کی طرف آباد نظر آتے ہیں۔اس لۓ حکومت کو چاہیۓ کہ وہ دیہی علاقوں میں تعلیم پر زیادہ زور دے چاھے وہ گورنمنٹسکول یا کالج ہوں یا پرائیویٹ حکومت کو ان کی تعداد میں اضافے کا بندوبست کرنا چاہۓ۔


 


اور سکول اور کالج ہی ایسی جگہ ہے جو اگر آباد ہو گی تو ہی  ملک ترقی کریگا اگر یہ دو جگہیں ویران یا کم ہوں گی تو ملک کی ترقی کا خواب دیکھنا بے معنی ھے۔


اس لۓ ہم سب کو چاھیۓ کہ حکومت کا ساتھ دیں اور اپنے بچوں کو اور بڑوں کو تعلیم کی طرف راغب کریں۔یہ ہی واحد راستہ ہے۔جس کو اپنا کر ہم کامیابی اور کامرانی کا راستہ اپنا سکتے ہیں۔  



About the author

Aiman-Habib

My name is Aiman ,And iam a student in KPK University.And now I am bloger at filmannex..AND feeling great to join filmannex.

Subscribe 0
160