جیسے جیسے امانت بڑھتا گیا زلیخا کے ذہن میں خواب سجنے لگے روز راتوں کو اٹھ کر امانت کا موازنہ چاند سے کرتی اسے معلوم نہ تھا کہاں چاند کہاں امانت یہی وہ فلسفہ تھا جو بعد میں اس پہ عیاں ہوا۔ زلیخا چاہتی تھی کہ امانت کے نصیب میں سارے غم اسے مل جاۓ۔ امانت جیسے بڑھتا گیا تو اس نے صرف اپنے اردگرد ماں کا پیار ہی دیکھا وہ بے غم زندگی گزار رہا تھا۔ زلیخا نے امانت کو گاؤں کے سکول میں داخل کروا دیا تھا۔ امانت ہر کلاس میں پہلی پوزیشن لے کر پاس ہوتا رہا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد آگے تعلیم کے لیئے شہر کے کالج میں داخلہ لیا۔ سلیم نے اپنی زمین بھیج دی تا کہ امانت کے کالج کا خرچ پورا کیا جاۓ۔
شہر آ کر نا پختہ امانت کو سہارا دینے کے لیئے نہ تو زلیخا تھی نہ سلیم بلکہ اسے زمانے سے لڑنا تھا وہ زمانے سے جنگ ہار جاتا ہے کیونکہ اسکی ماں نے اسے صرف پیار سکھایا تھا لڑنا نہیں۔ شہر کی رنگا رنگی میں امانت کھو گیا۔ اسے یہ خیال بھی نہ گزرا کہ اسکے والدین اسے کتنی تنگی میں پڑھا رہے ہیں۔ سیر سپاٹے کپڑوں اور دوستوں پہ اپنے غریب والدین کے پیسے پانی کی طرح بہا رہا تھا۔ امانت کے بڑھتے اخراجات کو اسکے والدین مہنگی تعلیم کا نام دے رہے تھے۔
بڑھتے ہوۓ اخراجات نے زلیخا اور سلیم کے ذہن میں عجیب و غریب وسوسے پیدا کیئے۔سلیم نے لوگوں سے قرضہ لے کر امانت کو رقم بھیجی تا کہ اس کی تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہ آۓ۔
امانت اپنے ماں باپ کی جاہلیت کا فائدہ اٹھاتا رہا۔ اس بے چارے کا خود بھی کوئی قصو نہیں تھا۔ اسے ایسا ماحول ملاتھا وہ معاشرے کے ہاتھوں مجبور تھا۔ وہ یہی چاہتا تھا کہ وہ بھی دوسروں کی طرح نظر آۓ۔
کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد امانت کو ایک فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔اسے باپ کی علالت کی خبر مل گئی تھی۔ مگر اس نے باپ کی بیماری پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اور اپنی ملازمت میں مصروف رہا۔