نئے سال کے نئے سپنے سب بکھر کر رہ گئے

Posted on at


یہ 2013  کی آخری رات تھی۔ جب ہر کوئی اپنے دل میں حسرت لے کر سونے جارہا تھا کہ اب آنے والے نئے سال میں مشکلات سے نجات پالیں گیں۔ اسی حسرت کے ساتھ ایک اچھی امید کے ساتھ پوری قوم رات کو سہانے خواب سجائے اپنے سپنوں میں کھو گئی۔


 صبح سویرے جب سورج نے اپنی آنکھ کھولی اور اپنی کرنیں بکھریں تو زندگی بیدار ہونے لگی۔ مزدور اور کاریگر روزی روٹی کمانے کی فکر لے کر اور ایک اچھی امید کے ساتھ سڑکوں پر نکلے۔ سڑکوں پر آہستہ آہستہ گاڑیاں نکلنے لگی۔ نہ کوئی شور، نہ کوئی ہنگامہ بڑی گاڑیوں کی لائن اپنی ترتیب سے اور چھوٹی گاڑیاں اپنی لائن میں۔ جب گھڑی نے 9بجنے کا شور مچایا تو دفترکام کرنے والوں سے بھر گئے۔ اور ہر بندہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ کسی کو کسی سے کوئی غرض نہ ہو جیسے۔ ٹی وی پر بالکل امن نظر آنے لگا۔ نہ کوئی دھماکہ، نہ کوئی قتل اور نہ ہی کوئی خون ریزی۔ بس سیاسی پارٹیوں کی چند خبریں چل رہی تھیں۔ جو کہ عوام کی ترقی اور فلاح کے لئے نت نئے منصوبے اور پالیسیاں بنانے میں مصروف تھیں۔ نہ ہی کسی سی این جی اسٹیشن پر گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں نہ ہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ ، نہ گیس کی کوئی شکایت، ایک ہی رات میں جیسے سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔ یا خدا کیا یہ واقعی پاکستان کے حالات ہیں۔ یہ میرا کوئی خواب تو نہیں۔ اسی کے ساتھ ہی ایک جھٹکے سے آنکھ کھل گئی۔ ہاں یہ تو واقعی ایک حسین خواب تھا۔ درحقیقت جب انسان کچھ اچھا  سوچتا ہے۔ اور جس کے ہونے کی امید رکھ کر سوتا ہے۔ اسے خواب میں وہی ملتا ہے۔


جب 2014ء کا سورج طلوع ہوا تو حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ سارے خواب سارے سپنے ریزہ ریزہ ہو  کر رہ گئے۔ غریب کی روزی دو وقت کے کھانے کی فکر اسی طرح ہی برقرار رہی ۔ مہنگائی کا جن بوتل میں بند نہ ہو سکا۔ یہی ہنگامے، وہی لوڈ شیڈنگ وہی خون ریزی، دہشت گردی بھی کچھ کم نہ ہو سکی۔ حکومت کے دیے گئے سب وعدے اور عوام کے حسین خواب سب بکھر کر رہ گئے۔ اور پھر وہی دن گزرنے کے ساتھ 2014ء بھی گزرے گا۔


یا خدا  کاش کے وہ سپنا ایک حقیقت بن کر ہمارے سامنے آئے۔ ہماری بھی کوئی امید رنگ لائے۔ غریب کو اس کا حق ملے۔ امیر اپنے زور کا غلط استعمال نہ کرے، دہشت گرد بھی ایک عام انسان بن کر اپنی زندگی گزارے ۔ ہر طرف بس امن ہی امن ہو۔ خدایا کچھ ایسا کرو کہ عوام کی پکار حکومت کے دل پر اثر کر جائے۔ نہیں تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے۔


                                                      اے نئے سال بتا تجھ میں نیا کیا ہے


            اے نئے سال بتا تجھ میں نیا کیا ہے


                    مجھ کو نظر آتی ہے ہر بات وہی


                     آسمان بدلا نہ بدلی افسردہ زمین



About the author

160