دودھ پینا عام طور پر صحت کے لیے مفید مانا جاتا ہے مگر خواتین یومیہ ایک گلاس دودھ پیتی ہیں تو ان میں بیضہ دانی کے سرطان کا امکان پیدا ہو سکتا ہے ۔ حالیہ برسوں میں عموماً چکنائی سے پاک اور بالائی اترا ہوا دودھ استعمال کیا جاتا ہے لیکن اگر فل کریم ملک کا استعمال کیا جاتا رہے تو یہ زیادہ نقصان دہ ہے اور 21 مشاہدات کے بعد جو تجزیہ سامنے آیا ہے اس سے یہ علم ہوتا ہے کہ بیضہ دانی کے سرطان اور دودھ کے استعمال میں کہیں نہ کہیں کوئی ربط ضرور موجود ہے اور توانائی سے بھر پور دودھ مجموعی اعتبار سے خطرات میں اضافہ کرتا ہے۔
معلوم ہوا کہ دودھ میں موجود شوگر لیکٹوز کی وجہ سے ہارمونز کے پیدا ہونے کا عمل رک جاتا ہے اور 13 فیصدی زیادہ خطرات ہوتے ہیں کہ ٹیومر کی شکل میں یہ سرطان کو دعوت دے البتہ دہی یا پنیر کے استعمال سے اضافی خطرات کا امکان قطعی نہیں ہے۔
سرطان کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی یونین کے جریدے" جرنل آف کینسر" میں بتایا گیا ہے کہ صرف برطانیہ میں ہر سال بیضہ دانی کے سرطان کے باعث 4690 اموات ہوتی ہیں جس کی تشخیص کافی دیر سے ہوتی ہے جو قدرے جلد ہو جائے تو متعدد افراد کو سرجری کے زریعے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ خواتین میں اس مرض کے امکانات اس وقت زیادہ ہو جاتے ہیں جب وہ یومیہ ایک گلاس دودھ کا استعمال کرتی ہیں جبکہ چکنائی سے پاک یا بالائی اتارا ہوا دودھ خطرات میں اضافہ نہیں کرتا یا انہیں کسی حد تک محدود کر دیتا ہے۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق دودھ یا دودھ سے تیار کردہ مصنوعات کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہے۔
برطانوی کینسر ریسرچ میں سینئر انفارمیشن آفیسر ہنری اسکو کرافٹ کا کہنا ہے کہ "اس مشاہدے سے یہ بات واضح ہے کہ اگر ایک خاص طریقے سے جانچا جائے تو متواتر دودھ پینا یا دیگر ڈیری مصنوعات کا استعمال کرنا بیضہ دانی کے سرطان میں مبتلا ہونے کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے جو کہ بہت معمولی یعنی 0.2 فیصدی بھی ہو سکتے ہیں۔