انتہا(پارٹ ۲)

Posted on at


 


جب ایڈمیشن کے بعد سٹور کیپر آپ کو کرسی،میز،بیڈ اور فوم دیکر آپ کو ہاسٹل پہنچانے کو کہا جاتا ہے اور اسی وقت بڑی مشقت کے بعد پھر ہاسٹل ڈھونڈنا اور وہاں پر پہنچ جانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ خصوصاً ان لڑکوں کے لیئے جو چنگ چی،گدھا گاڑی،تنگ گلیاں اور لشکی لشکی سے ناواقف  اس وقت ان بچاروں کی ذلالت کی انتہا ہوتی ہیں۔ یہ سامان صرف اور صرف ایک بار نہیں بلکہ ایک سال میں ۶ دفعہ مختلف ہاسٹلوں میں شفٹ کرنا پڑتا ہے۔



اور پورے سال میں صرف ۶ مہینے کلاسز ہوتی ہیں اور اس میں ۶ مرتبہ ہاسٹل تبدیل ہوتا ہیں۔ جب ہاسٹل کے ہر کمرے میں وارڈ کی طرح بیڈ ہوتے ہیں اور گزرنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی جب گھنٹوں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہیں اور ہاسٹل میں پانی نہیں ہوتا موبائل میں چارج اور کمرے میں روشنی نہیں ہوتی اور ایسی حالات میں اگر کوئی سٹوڈنٹ باہر نکلے تو ساری رات سینئر کی فولنگ برداشت کرتے کرتے صبح ہو جاتی ہیں اور صبح مسجد جا کر ہاتھ منہ دھو کر راستے میں ناشتہ کرنے کے بعد بندہ تھوڑا بہت آزادی محسوس کرتا ہے۔ تو اسی حالات میں جب بائیو کیم کی لیب میں ڈاکٹر صاحبہ پورے سال کی باتیں سناتی ہیں اور تھوڑا لیٹ آنے پر پوری دنیا کی تمام خامیاں آپ میں دیکھ کر تمام سٹوڈنٹس کے سامنے بیان کرے تو یقیناً اس وقت زلالت کی انتہا ہوتی ہیں۔



جب کالج میں کسی لڑکی سے کوئی پریکٹیکل کی کاپی مانگنے کی درخواست کرے اور وہ غصہ میں آکر ہندوستان کی تمام فلموں کے ڈائیلاگ مار کر آپ کی خوب بے عزتی کرے اور آخر میں کہے آپ نے اپنی شکل دیکھی ہے مجھ سے کاپی مانگتے ہو کس نے تمہیں کہا تھا کے میرے سامنے آؤ۔ دفعہ ہو جاؤ۔


الغرض ان تمام مشکلات کٹھن اور نا گفتہ بے حالات کے باوجود یہ لوگ انشا اللہ مستقبل کے بہترین ڈاکٹر ہوں گے۔


خدا کرے کہ بنوں میڈیکل کالج قوم و ملک کی بہترین خدمت کریں۔ اور یہ قوم و ملک کے لیئے فخر کا ذریعہ بنے۔



 


” بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی”


بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں”



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160