رواداری

Posted on at


اسلام کے سوا کوئی دوسرا مزہب رکھنے والے کی بات سننا اور اُسے اپنے عقیدے پر قائم رہنے کا حق دینا رواداری کہلاتا ہے۔رواداری سے مراد کسی ایسی بات کو برداشت کرنا بھی ہے جو ہمارے مزاج کے خلاف ہو۔قرآن مجید میں اللہ کا واضح حکم ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر(زبردستی)نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ چاہے تو وہ ایمان لا کر مومن بن جائے اور اگر چاہے تو کفر کی راہ اختیار کر کے منکر بن جائے۔



نبی کریمﷺ نے ہمشہ غیر مسلموں کے ساتھ رواداری کا معاملہ کیا ایک بار نجران سے عیسائی علماء کا وفد حضوراکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا عیسائی علماء اور رہنماؤں کو مسجد نبوی میں ٹھرایا گیا اور ان کی مہمان نوازی کی گئی ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی گئی انھوں نے اسلام قبول نہ کیا۔لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے انہیں مسجد نبوی میں ان کے اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دے دی۔حضرت عمر فاروقؓ نے غیر مسلم رعایا کے جان و مال اور مزہب کے حقوق کو محفوظ بنایا۔حضرت عمر فاروقؓ نے ایک بوڈھے کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو آپؓ نے پوچھا تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟



 اُس نے کہا مجھ پر اتنا جزیہ لگا دیا ہے کہ میں ادا نہیں کرسکتا یہ سن کر آپؓ گھر گئے اور نقد رقم لا کر دے دی بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر کیا اور کہا یہ انصاف نہیں کہ جن لوگوں کی کمائی (جوانی کی کمائی) سے ہم نے فائدہ اٹھایا،بڑھاپے میں ان کی پرواہ نہ کی جائے برصغیر پر مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال تک بڑی شان و شوقت سے حکمرانی کی لیکن کسی بھی ہندو کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا اگر وہ ایسا کرنا چاہتے تو برصغیر میں ہندوں کا نام ونشان تک نہ ملتا لیکن مسلمانون نے کمال رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوں کو بڑے بڑے عہدے عطا کئے




About the author

bilal-aslam-4273

i am a student

Subscribe 0
160