پاکستان کے پہلے تعلیمی بورڈ کا اجلاس

Posted on at


پاکستان کے پہلے تعلیمی بورڈکا اجلاس جون ١٩٤٨ میں ہوا ،جس میں علان کیا گیا کہ بچوں کو پانچویں تک مادری زبان میں تعلیم دی جائے گی ،جس کے بفد بتدریج اردو اور انگریزی پڑھائی جائے گی ،یہ بھی فیصلہ ہوا کہ ١٩٥٧ تک انگریزی کی جگہ اردو لے لیگی اور تعلیم کو مذہب سے ہم آہنگ کیا جائیگا ١٩٥٠ کے عشرے ،میں بھی تعلیمی بورڈ نے یہی رٹ لگاۓ رکھی کہ تعلیم کے ذریے نظریاتی اور سیاسی یک جہتی پیدا کی جائیگی ،پانچویں جماعت تک مادری زبان کا وعدہ کبھی پورا نہ ہو سکا کیوں کہ کہ قول اور فیل دونوں تضاد سے بھر پور تھے ،ایک طرف مادری زبانوں کی بات کی جا رہی تھی تو دوسری طرف اردو کو ایک قومی زبان کے طور پر موصلات کیا جا رہا تھا اور تیسری طرف انگریزی کو مکمل تحفظ دیا جا رہا تھا ،١٩٤٩ کے اجلاس میں وعدہ کیا گیا کہ ٢٠ سال میں خاندگی کا تناسب ٢٠ فیصد تک پو پوھنچا دیا جائیگا ،جو آج تک بھی ایک خواب معلوم ہوتا ہے ،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ نہیں ہوا نہ تعلیمی ادارے بنے گے نہ ملوماتوں کے مواقے نکلے گے جو زیادہ تر جان پہچان والوں کو دی گیی یا سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے استمال کی گیی ،اعلی تعلیمی اداروں پر زیادہ زور رہا کیونکہ وہیں پر اعلی درجے کی مولازمتیں بھی تھیں اور دیگر مرات بھی جو افسر شاہی میں مرغوب رہی ہیں -

                                   

                                    ایوب خان کے دور میں ہمارا تعلیمی نظام

ایوب خان کے دور میں حکومت مخصوص لوگوں کے بچوں کے لئے ہر ممکن مدد کرتی رہی مصلاً کیڈٹ کالج اور پبلک اسکول کو ریاستی وسائل سے بیشمار سہولتیں دی گئیں اسی دور میں ٹیکسٹ بک بورڈ یعنی درسی کتابوں کے ادارے بناے گئے ،جن کے ذریے سرکاری کتابیں تعلیمی نظام پر موسلّط کر دی گیں ان سرکاری درسی کتابوں کے ذریے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ حکومتی پالیسیاں دورے سیاست پر ہا وی رہیں یہی وو دور تھا ،

جب مورخ اشتیاق قریشی نے تاریخ کو ایک سلامی رنگ دینے کی کوشش کی لیکن در حقیقت پاکستان کی تاریخی اور ثقافتی رشتے برے صغیر سے توڑ کے عرب ممالک سے جوڑنے کی کوشش کی گیی درسی کتابوں میں غیر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بھر دیا گیا مذہبی رواداری اور بھائی چارے کا گلہ گھونٹ دیا گیا اس کے علاوہ ستم ظرفی یہ کہ مقامی تاریخی شخصیت کو نظر انداز کر کے سندھی ،بلوچی ،پختون اور سرائیکی علاقے کو فراموش کر دیا گیا اور ایسے تاریخی واقعیات اور شخصیات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جن کا مقامی ربط نہ ہونے کے برابر تھا ،

                                       

 

جب ملک میں نفرت اور تعلیمی اداروں پر لے دے ہونے لگی تو سرکاری طور پر میرٹ کا علم لیا گیا یعنی یہ کہا جانے لگا کہ ہر تعلیمی ادارے میں ہر کسی کو چاہے وو غریب ہو یا امیر داخلے کے مساوی مواقے مہیا کیے جائینگے شرط یہ ہے کہ وو میرٹ پر مبنی داخلے کے امتحان پاس کر لیں آج بھی کیڈٹ کالج اور دیگر تعلیمی ادارے یہی رگ الاپتے ہیں کہ ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا اور اگر کسی غریب کا بچا بھی داخلے کا امتحان پاس کرلے تو اسے فیس نہ ہونے کی وجہ سے داخلے سے محروم نہیں کیا جاتا بلکہ اسکے لئے سکولر شپ یا وظیفے کا بندوبست کر دیا جاتا ہے بظاھر یہ بات بھی معقول معلوم ہوتی ہے مگر ذرا غور کیا جائے کراچی یا لاہور میں گراممر اسکول کا پڑھا ہوا بچہ اور گوٹھ غلام محمد کے سرکاری اسکول کا پڑھا ہوا بچہ جب ایک ہی داخلے میں بیٹھیں تو مساوی موقع ملنے کے باوجود زیادہ نمبر لے لگا

                          

                                            ہمارا نظام ے تعلیم

اگر پاکستان میں حکومت اور تعلیم ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی جو سماجی ارتقا کا شعور رکھتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ جو آج علم و فن کی بلندیوں پر ہیں انھیں یہاں تک پوھنچانے میں آزادی افکار و اظہار نے بوہت اہم کردار ادا کیے ہیں پاکستان کے قیام کے بعد اساتذہ اور طلبہ حیکمرانوں سے کہیں زیادہ باشعور تھے اور موسلسل آزادی افکار و اظہار کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں مگر اس خواب کو مسلسل چکنا چور کیا جاتا رہا ہے جواز یہ تھا کہ چونکہ ریاستی تعلیمی ادارے ریاستی خرچہ پر چلتے ہیں اس لئے ریاست کا انپر مکمل اختیار ہونا چایی

                        

یہ جواز دینے والے یہ بولتے رہے کہ ریاستی خرچے دراصل وسائل سے پورے کیے جاتے ہیں اور عوام کی محنت کا پیسہ ہے جو ریاست کو چلاتا ہے اگر عوام آزادی افکار و اظھار چاتے ہیں تو یہ انکا حق ہے نہ کہ ریاست کا کہ وو نظریات مذہبی جواز کی اڑھ میں اس حق کو کچلے ١٩٦٩ میں جب جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ایک اور تعلیمی پالیسی پر کام شروع کروا دیا اس بار کوئی جج نہیں بلکہ ایک فوجی افسر یعنی ایئر مارشل نور خان کو یہ کام سونپا گیا کہ وو پاکستان کی تعلیم کی چولیں ٹھیک کریں

                                 

 

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی تعلیمی تاریخ میں شاید ہی کبھی کسی ماہر تعلیم کو تعلیمی پالیسی کا سربراہ بنایا گیا ہو اکثر یہ کام جج اور فوجی کرتے رہے تعلیم کا ٹی پہنچا کرنے میں سابق وزراے تعلیم جسٹس گوس علی شاہ سے لیکر جنرل اشرف قاضی تک سب کے ہاتھ رنگے ہووے ہیں ، 

                           



About the author

abid-khan

I am Abid Khan. I am currently studying at 11th Grade and I love to make short movies and write blogs. Subscribe me to see more from me.

Subscribe 0
160