تعلیم میں زبان کی اہمیت

Posted on at


 

 یوں تو ہمارے ملک کا تعلیمی نظام یکسانیت سے محروم ہے۔ اور ایک عام فہم شخص بھی یہ سمجھنے سے  قاصر نہیں کہ ہمارا   تعلیمی  نظام اپنے ساتھ کئی معیار رکھتا ہے، جو پاکستانی معاشرے کے تمام طبقات  کے لئے علحیدہ علحیدہ ہے۔ لیکن یہ سب باتیں اپنی جگہ ، ہمیں یہ چیز سمجھنی چاہیئے کہ کون سے محرکات ان عیوب کے پیچھے کارفرما  ہیں۔  اور وہ ہماری زبانوں کاہے  جس کی وجہ سے ہمارا سارا معاشرہ پہ در پہ زوال پزیر ہے۔  

ہمارے ملک میں ہر علاقے کی اپنی زبان ہے لیکن  ہماری قومی زبان اردو جسے پورے ملک میں اگر بولا نہیں جاتااور آسانی سے سمجھا جاتا ہے۔ اور ہماری جامعات میں بنیادی تدریسی تعلیم بھی اردو زبان میں دی

 جاتی ہے۔   جسے ہمارا معاشرہ بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

علاوہ ازیں بیشتر تدریسی جامعات میں اردو کے علاوہ انگریزی زبانوں میں کتب پڑھائی جاتی ہیں۔

 

 ہمارے ملک کا نظام حکومت بھی انگریزی زبان میں ہی اپنی تمام خط و کتابت کرتا ہے۔  گو کہ ہماری قومی زبان اردو ہے، اور اس کا تقاضا بھی یہی بنتا ہے  کہ تمام  جامعات ، سرکای دفاتر ، عدالتوں اور اداروں میں اردو زبان ہی میں ہی پڑھایا ، لکھایا جائے اور  تمام خط و خطابت  و کتابت کو بھی اردو زبان ہی میں ترجیع دی جائے جسے ہمارے معاشرے کے تمام طبقات سمجنھے اور بولنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

دنیا میں جتنی قوموں نے ترقی کی ہے انہوں نے اپنی زبانوں میں بنیادی تعلیم سے اعلی تعلیم تک تدریسی کتب رائج کیں اور جن کتب کی ضروت باہرکے ممالک سے تھیں ترجمانوں سے ان کتب کے ترجمے کروا کر اپنے تدریس کا حصہ بنایا۔  ان ممالک میں کوریا، ، جاپان، چین، فرانس، اٹلی، سپیں قابل ذکر ہیں۔

یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ سمراجی قوتیں امریکہ، روس اور برطانیہ کا اثر رکھنے کے باوجود ان قوموں نے

اپنے قومی اور تدریسی نطام کو اپنی ہی قومی زبانوں کے دائرے میں رکھا۔ 

یہ اعتراف حقیقت ہے کہ مختلف زبانوں کے تدریسی نطام نے  ہمارے معاشرےکے طبقات میں استحصالی خلاٰ بنا دیا ہے۔  اور سمراجی قوت امریکہ کے زیر سائہ چلنے والے تدریسی نظام کو ترجیع دی گئی اور انہی اداروں سے فارغ التحصیل طلباء کو ملک کے اہم عہدے دیئے گئے اور سمراجی قوت امریکہ اور برطانیہ کے کہنے کے مطابق اپنے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر چند کوڑیوں کے حوض ،  ملک کو آگ و خون کےکھیل میں لگا دیا۔ جبکہ یہ افسران بالا قوم کے سامنے  اپنے آپ کو کسی جواب طلبی کے حقدار نہیں سمجتے   اور احتساب سے بری الزما۔

 

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے 

وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہوت

خدا کرے نہ کبھی خم‘ سرِ وقارِ وطن

 اور اس کے حسن کو تشویش ماہ وسال نہ ہو



160