بین الاقوامی حالات کا جائزہ اور پاکستان کے خارجہ تعلقات کی کامیابیاں اور ناکامیاں

Posted on at


دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی سیاست میں سرد جنگ کا آغاز ہوا اور دنیا دو مخالف اتحادی بلاکوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک کو سرمایہ دارانہ مغربی اتحاد اور دوسرے  کو اشتراکی (کمیونیسٹ) یا مشرقی اتحاد کا نام دیا گیا۔ پہلے بلاک کا سربراہ امریکہ جبکہ دوسرے کا روس تھا۔ ایک طویل سرد جنگ کے بعد دسمبر1991ء میں سویت یونین (کمیونسٹ روس) کا خاتمہ ہوا اور یوں دنیا میں امریکہ  واحد سپر پاور رہ گیا۔

بین الاقوامی سیاست کے نئے رخ نے امریکہ کو فیصلہ کن کردار بخش دیا جس کی وجہ سے امریکہ  مخالف قوتوں اور ممالک  کو سخت دشواریاں  لاحق ہوئیں کیونکہ ان نئے حالات میں امریکہ کسی بھی  مخالفت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان حالات میں مسلمان ملکوں کو کافی دشواریاں درپیش ہوئیں۔

امریکہ پر 11 ستمبر 2001ء  میں خودکش حملوں کی وجہ سے افغانستان، امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کا نشانہ بنا اور 2003ء میں عراق پر حملہ کیا گیا۔ عراق پر حملے سے پہلے اقوام متحدہ کے مختلف فورم پر امریکہ ہی کے اتحادی ممالک فرانس اور جرمنی نے عراق پر امریکی حملے کی سخت مخالفت کی۔ جس کی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کسی حد تک کشیدہ ہوئے لیکن باوجود اس مخالفت کے عراق امریکی حملے کا شکار ہوا۔ امریکہ کے ایران کے ساتھ اسلامی انقلاب کے وقت سے تعلقات خراب ہیں۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ کسی طرح ایران کی اسلامی حکومت کا خاتمہ کر دے۔

ان نئے حالات میں پاکستان کی خارجہ پولیسی میں بھی تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئیں ہیں۔ جب 11 ستمبر 2001ء میں امریکہ پر خود کش حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے افغانستان میں طالبان کی حکومت پر دباؤ بڑھا تو پاکستان نے بھی افغانستان کی طالبان حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا اور  دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ ہو گیا۔

پاکستان کی خارجہ پولیسی کشمیر کے محاذ پر بھی کافی دباؤ کا شکار ہوئی۔ بین الاقوامی سیاست میں آزادی کی مسلح تحریکوں کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ ان حالات میں کشمیر کا مسئلہ کافی پچیدہ ہوا اگر چہ مختلف محاذوں پر پاکستانی راہنماؤں نے واضع الفاظ میں آزادی کی تحریکوں اور دہشت گردی میں فرق واضع کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ اس کے باوجود بین الاقوامی برادری اپنی سوچ تبدیل کرنے پر راضی نہ ہوئی۔ ان بدلتے ہوئے حالات کے مطابق پاکستان کو بھی کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ اگر چہ پاکستان اب بھی کشمیر پر اپنا اصلولی موقف ( یعنی کشمیر کا فیصلہ وہاں کی عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے) اپنائے ہوئے ہے تاہم اس کا طریقہ کار اب تبدیل ہو گیا ہے۔ پاکستان کی اب کوشش ہے کہ کشمیر کی تمام مسلح جہادی تنظیمیں بات چیت کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کے حل میں شامل ہوں اور کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہو۔

بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کی مدبرانہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو کافی استحکام حاصل ہوا۔ امریکہ نے پاکستان کو غیر نیٹو دوست کا درجہ دے رکھا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ پاکستان پر ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے جتنی پابندیاں لگائی گئی تھیں سب  ا ٹھا لی گئیں۔ اربوں ڈالر کی ناصرف معاشی امداد دی گئی بلکہ امریکہ کی طرف سے فوجی اسلحہ دینے کا بھی اعلان ہوا۔ امریکہ کی دیکھا دیکھی دوسرے ترقی یافتہ ممالک نے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھائے، نا صرف معاشی مدد فراہم کی گئی بلکہ پاکستان میں سرمایہ کاری بھی کی گئی۔ حکومت کی مثبت خارجہ اور معاشی  پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معاشی حالت بہت مستحکم ہوئی۔

موجودہ دور میں پاکستان بین الاقوامی سیاست میں بہت اہم اور مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اگر پاکستان کی خارجہ اور اندرونی پالیسیوں میں تواتر رہا تو انشاء اللہ پاکستان جلد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔

 



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160