جنگلات کی اہمیت

Posted on at


آہستہ آہستہ جسطرح دنیا دن بدن ترقی تو وہ اپنی قدرتی خوبصورتی کھو رہی ہے اسلئے ہر طرف انسانوں کی بنائی ہوئی خوبصورت چیزیں ہی آجکل نظر آنا شروع ہو گئی ہیں ۔ جس سے دنیا کا قدرتی حسن مانند پڑ گیا ہے۔ اس کے ساتھ بہت سے نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلئے میں نے آج جنگلات کی اہمیت پر لکھنے کا سوچا ہے۔


 


بیسویں صدی کو ایجادات کی صدی کہا جاتا ہے کیونکہ اس صدی میں انسانوں نے بہت سی نئی چیزیں بنا ک اپنی مشکلات کو کافی حد تک دور کر لیا ہے۔ لیکن پھر بھی اس کے ساتھ ہی کچھ نقصانات کو بھی دعوت دی۔ اکیسویں صدی میں دنیا کی آبادی میں بہت اضافہ ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ شہروں کا رقبہ بھی بھڑنے لگا ہے۔ شہروں کے اردگرد کا رقبہ زیادہ تر جنگلات پر مشتمل ہوتا ہے یا پھر کھلے میدانوں اور صحراؤں پر.جیسے جیسے شہر پھیلتے جا رہے ہیں تو جنگلات ختم ہوتے جا رہے ہیں . وہاں پرانسانوں نے اپنے شہر آباد کر لیے ہیں۔


 


جنگلات کے ختم ہونے سے آب و ہوا پر کافی اثر پڑا ہے۔ درخت کیونکہ  آکسیجن فراہم کرتے ہیں جسکو ہم سانس لینے کو طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جنگلات کم ہو رہے ہیں اسلئے سانس لینے کے لئے ہمیں صاف ہوا نہیں ملتی اور دن بدن بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے. کاروں، ٹرکوں اور اسطرح کی جو دوسری چیزیں ہیں وہ دھواں خارج کرتی ہیں جس سے ہوا آلودہ ہوتی ہے اور جب ہم سانس لیتے ہیں تو ہمارے اندر زہریلے جراثیم جاتے ہیں ۔ جو کہ پہلے انسانوں کے پھیپھڑوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔پھر آہستہ آہستہ انسان کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔جس کا اثر انسان کے دوسرے اعضا پر بھی پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔جس سے انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنی منزل یعنی موت پر جا پہنچتا ہے



پاکستان میں جنگلات کا ٹوٹل رقبہ 4.8 فیصد ہے جو کہ پاکستان کے کل رقبہ میں سے ہے۔ یہ جنگلات بھی آہستہ آہستہ اپنا وجود کھو رہے ہیں .چھانگا مانگا کا جنگل پاکستان کا سب سے بڑا جنگل ہے۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے سڑکوں کے کناروں اور ان کے درمیان درخت لگانے کے مختلف منصوبے شروع کیے ہیں۔ جس سے ایک طرف تو ہوا تازہ رہے گی اور دوسرا ماحول کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوگا 


 


 



آخر میں میں پوری دنیا سے یہی کہنا چاہوں گا کہ جو اپنے جنگلات  کو بچا نہیں سکتے.تو کم ازکم اپنے شہروں میں جہاں جنگلات نہیں ہوتے.وہاں زیادہ سے زیادہ پودے لگائیں تاکہ انسانوں کو سانس لینے کے لیے تازہ ہوا میسر آ سکے اور وہ مختلف قسم کی سانس کی بیماریوں سے نجات حاصل کر سکیں




About the author

160