دین اسلام میں جبر کی گنجائش نہیں۔

Posted on at



دین اسلام ایک روشنی ہے جو جس کے دل میں رچ بس جائے گویا وہ دنیا و آخرت میں کامیابی کی منزلیں پا گیا۔ دین اسلام کی بنیاد ایمان ہے جس کا تعلق دل سے ہے اور دل صرف اپنے اختیار سے کسی چیز کو پسند اور نا پسند  کرتا ہے  ۔ اسلام میں کسی کو جبراً مسلمان بنانے کی گنجائش نہیں جب تک وہ خود اپنی رضا سے اسلام قبول کر لیں۔ 



خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضہ ، نے ایک دفعہ ایک نصرانی بڑھیا کو اسلام کی دعوت دی۔ تو بڑھیا نے اُن کے جواب میں کہا، میں ایک قریب مرگ بڑھیا ہوں آخری وقت میں میں اپنا ایمان کیوں چھوڑوں؟ یہ سن کر سیدنا عمرفاروق رضہ نے اس کو ایمان پر مجبور نہیں کیا اور فرمایا کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ 



 


اسلام میں جہاد و قتال کی تعلیم لوگوں کو قبول ایمان کے لئے نہیں ہے۔  ورنہ جزیہ لے کر کفار کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے لئے اسلامی قوانین کیسے جاری ہوتے۔


سورہ البقرہ کی آیت نبر 256 میں ہے" دین میں زبردستی نہیں ہے۔" 


ایک اسلامی ریاست میں ایک کافر کو  کفر پر رہ جانے کی اجازت تو ہے لیکن ایک بار وہ اسلام میں  داخل ہو جائے تو پھر اسے انحراف اور بغاوت کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس کی وجہ نظریاتی انتشار اوراسلامی معاشرے کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اسلام ایک جامع واکمل دین ہے۔  جو حیات انسانی کے تمال شعبوں پر حاوی ہے۔


اسلام میں قتل و غارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والے کو سزائے دینا عین انصاف ہے۔ جس کا مقصد عین اسلامی نظریاتی ملت کا تحفط ہے اور شر و فساد سے بچنا ہے۔ 


 



160