بجلی کے مسائل کے سدباب کے لئے حکومتی کوششیں۔

Posted on at


جیسا کہ یہ واضح ہو چکا ہے قدرت نے پاکستان کو بے پناہ وسائل سے ملا مال کیا ہے۔ جن کو بروئے کر لا کر توانائی کی ضرویات پوری کی جا سکتی ہے۔ضرورت ہے اس امر کی کہ ان وسائل کے استعمال میں سستی سے کام نہ لیا جائے ماضی قریب میں واپڈا نے کچھ ایسے پروجیکٹ پر کام شروع کیا ہے جو اگر   بروقت مکمل کر لی جائے تو توانائی کی ضرویات پوری ہو سکتی ہے۔  واپڈا کے یہ منصوبے دیامر بھاشہ ڈیم، بونجی ہائیڈرو الیکڑک پروجیکٹ ، مونڈہ ڈیم وغیرہ کی شکل میں پیپر پر تو موجود ہیں اب انہیں جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔  ماہرین کے نزدیک صرف صوبہ خیبر پختون خواہ میں تیس ہزار سے زاہد میگاواٹ پن بجلی کے  وسائل موجود ہیں۔



اسی طرح گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی ایسے وسائل  موجود ہیں اور مختلف حکومتیں ان منصوبوں کو عملی جامہ پنہانے کے لئے پر تول رہی ہیں۔  آئین کی اٹھاوریں ترمیم کے بعد صوبوں کو اپنے لئے توانائی کے حصول کے لئے بھی کافی خودمختاری مل گئ ہیں اور اس کو دیکھتے ہوئے مختلف صوبائی حکومتں بجلی کی پیداوار کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ پنجاب حکومت اس سلسلے میں جن انرجی کے منصوبوں پر کام کر  رہی ہے ان میں ہائیڈرل پاور، سولر اور بائو ماس کے منصبوبے نمایاں ہیں۔ پنجاب حکومت کو توقع ہیں کہ آئندہ وہ چند سالوں میں ک از کم چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر سکے گی۔



 


خیبر پختون خواہ میں اس سلسلے میں کافی پیشن رفت ہو چکی ہے۔ سرحد ہائیڈرل ڈی ولمپنٹ آر گائزیشن کے تحت بجلی کے منصوبوں سے ایک سو پانچ میگا واٹ کی بجلی نیشنل گریڈ یعنی واپڈا کو فروخت کی جا رہی ہے۔ اور حکومت کو توقع ہیں کہ آئندہ کچھ برسوں میں پرائیویٹ اور سرکاری  منصوبوں سے کم از کم تقریبا چار ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار ممکن ہو جائے گی۔  



ماہرین کے نزدیک شمسی توانائی کو بجلی میں بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ مقامی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے۔ اور ایسی ٹیکنالوجی سامنے لائی جائے کہ توانائی کا حصول باوقت میگا نہ ہو۔ اس کے ضروری ہے کہ شمسی توانائی کے حصول کے لئے   استعمال ہونے والی مصنوعات مقامی طور پر تیار کی جائے۔ دلچسپی سے خالی یہ بات نہیں کہ ضرورت ہی ایجاد کی ماں ہے۔ مختلف افراد انفرادی طور پر شمسی توانائی کے حصول کے لئے کوششے کر رہے ہیں۔ اور یہ کوششے کسی طرح بھی کم اہم نہیں۔




160