انٹرمیڈیٹ کا نتیجہ آیا۔ طالبعلم ہونہار تھا۔80 فیصد نمبر حاصل کیے۔ خاندان میں اور محلے میں دھوم مچ گئی۔کچھ عرصہ تو سب اس کا جشن مناتے رہے اور پھر تعلیم کے مزید حصول کے لیے داخلہ لینے کا وقت آ گیا۔بچہ انجینئر بننا چاہتا تھا، باپ اسے ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا اور ماں نے فوج کے سپنے دیکھے ہوئے تھے۔جب گھر والوں کا دباؤ بڑھا تو وہ بے چارہ اس مخمصے کا شکار ہو گیا کہ کس کی مانے اور کس کی نہ مانے۔ اس کشمکش نے اس کی نفسیات پہ اثر ڈالا جس نے ذہنی دباؤ کی شکل اختیار کر لی۔ذہنی دباؤ نے جب ہیجان کا روپ دھارا تو بچے نے بے اختیار باہر کا رخ اختیار کیا جہاں اسے برے دوستوں کی صحبت معاشرے سے تحفے میں ملی اور آخرکار وہ بیچارہ خود کو نشے کی لت لگا کر ’’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ کے مصداق نہ دین کا رہا اور نہ دنیا کا۔
یہ تو صرف ایک مثال تھی،ہمارا معاشرہ ایسی سیکڑوں مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ضروری نہیں کہ ہر بچہ مندجہ بالا مثال کی طرح نشے یا باالفاظِ دیگر فرار کا راستہ ہی اختیار کرتا ہے مگر پھر بھی ایسا ضرور ہوتا ہے کہ بچے کی ذاتی،معاشی اور معاشری زندگی برباد ہو جاتی ہے اور بچے نے جو خواب دیکھے ہوتے ہیں وہ چکنا چور ہو جاتے ہیں اور وہ صحیح معنوں میں کسی معاش کے قابل نہیں رہتا۔ ایک عام مثال سننے میں آتی ہے کہ \"its better to be a good technician than a bad engineer\"۔مگر یہ صرف مثال ہی ہے اس پہ عمل بہت کم یا کیا ہی نہیں جاتا۔یہ مسئلہ صرف پڑھائی سے ہی نہیں بلکہ اور بہت سے معاملاتِ زندگی کے ساتھ جڑا ہواہے۔ یہ پہنو، یہ کھاؤ، یہاں جاؤ، فلاں سے ملو، یہ کرو وغیرہ وغیرہ ہر گھر بلکہ ہر گھر کے بچوں کا مسئلہ ہے اور تو اور ہم مذہب جیسے نازک مسئلے میں بھی انتہائی درجے کے شدت پسند اور روایت پسند واقع ہوئے ہیں یعنی بیٹا جی تمہارے باپ دادا کا یہ مذہب اور یہ مسلک تھا اس لیے تمہیں بھی اسی رستے پہ چلنا ہو گا کیونکہ یہی رستہ ٹھیک ہے اور تمام مسالک اور مذاہب غلط ہیں۔ یہ کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ ایسا تو ہر مذہب اور ہر مسلک والا سوچتا ہے کہ وہی ٹھیک ہے۔اولاد کو اختلافِ رائے کا کوئی حق نہیں دیا جاتا بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اولاد اختلافِ رائے رکھنے کی ہمّت ہی نہیں کر پاتی کیونکہ اس کے دل میں بزرگوں کے لیے نام نہاد احترام بلکہ خوف موجود ہوتا ہے جو انہیں اندھی تقلید پہ مجبورہی نہیں کرتابلکہ دھکیلتا بھی ہے۔ میری دانست میں اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک Generation gap اور دوسری Self possesions جو کہ سارے والدین کے دل میں اپنی اولاد کے لیے ہوتی ہیں جو نہ scientifically درست ہیں،نہ شرعی طور پہ اور نہ ہی اخلاقی طور پہ۔مثلاً ایک باپ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر اس لیے بنانا چاہتا ہے کہ وہ خود ڈاکٹر نہیں بن پایا یا ایک باپ اپنے بیٹے کو اس لیے ڈاکٹر بنانا چاہتا ہے کہ وہ خود بھی ڈاکٹر ہے یا ایک باپ اپنے بیٹے کو اس لیے ڈاکٹر بنانا چاہتا ہے کہ اس کے خاندان میں اور کوئی ڈاکٹر نہیں۔یہ سب رویے عقل کے فلسفے کے خلاف ہیں اور ان کی بنیادی وجہ خوف اور حزن(Fear and Frustration) ہے۔وسیع النظری کا تقاضا تو یہ ہے کہ اولاد اور والدین میں دوستی کا رشتہ ہو اور ان میں ہر قسم کی بات چیت بنا کسی پردے کے ہو مگر ہمارے معاشرے میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔یہاں وسیع النظری کے مزار پر تنگ نظری کے چراغ جلائے اور سجائے جاتے ہیں اور انہی چراغوں کی روشنی میں نہا کر خود کو روشن خیال بھی کہلوایا جاتا ہے۔
ہم نے شاید ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا کہ ہم اکیسویں صدی کے باسی ہیں،ہم نے خود کو ذہنی طور پہ اس قدر مفلوج کر رکھا ہے کہ جیسے ہم اٹھارویں صدی میں جی رہے ہیں۔ہمیں اس حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا کہ اولاد ہماری زرخرید غلام نہیں بلکہ وہ ایک جداگانہ طرزِ فکر رکھتی ہے کیونکہ ہماری اولاد ہمارے زمانے کی نہیں نہ ان کے لیے مواقع ہمارے زمانے والے ہیں۔ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ اﷲ نے ہمیں اولاد سے اس لیے نہیں نوازا کہ ہم انہیں غلام بنا لیں بلکہ ہماری اولاد ہمارے لیے مہمانوں کی طرح ہے جس نے کچھ دن مہمانوں کی طرح ہمارے گھر میں رہنا ہے اور پھر چلے جانا ہے۔ ان کا زمانہ یہ ہے اور وہ اپنے لیے رستے بنانا جانتی ہے۔ہمیں اپنے گھروں کا ماحول عہدِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق رکھنا ہو گا اور ہمیں اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف کرنا ہو گا کہ ہمارے بچے صرف ہماری اولاد ہیں،ہماری ملکیت نہیں۔