AIDS

Posted on at


ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی ایسا مرض رہا ہے جو لاعلاج ہوتا ہے .انسان اپنی پوری کوشش سے اس کا علاج دریتا کرتا ہے.تب تک کوئی اور مرض ایساجنم الیتا ہےجولاعلاج ہوتا ہے.یہ سلسلہ دنیا کے وجود  میں آنے سے لے کر چل رہا ہے اور ہمیشہ چلتا رہے گا. ایک زمانہ تھا کے جب دل کے مرض کو لا علاج سمجا جاتا تھا لکن آخر کار اس کا علاج بھی دریافت کر لیا گیا اور اس سے بچنے کی تدبیر بی اختیار کر لی گیں.چناچے یہ مرض بھی لا علاج نہ رہا.اس سے بچنا بھی آسان ہو گیا اور اس کاعلاج بھی ممکن ہو گیا. اس ترھا اور  کئی بیماریو نے جنم لیا اور لا علاج پائی لکن ان کا علاج بھی دریافت کر لیا گیا .بیماریوں کے جنم لینے، ان کے علاج دریافت ہونے اور پھر نئی بیماریوں کے جنم لیتے چلے جانے کا سلسلہ اس لئے  ختم  ہونے والا نہیں کہ موت کا علاج انسان کے پاس نہیں اور موت کو ہر حال میں ا کر رہنا ہے.

 

 آج کل لا علاج مرض ایڈز ہے. .یہ مرض ہے کیا ؟. اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کے یہ بذات خود کوئی واضح طور پر دکھائی دینے والا مرض نہیں ہے لکن یہ انسانی جسم کے مدافتی نظام کو بلکل ناکارہ بنا کر رکھ دیتا ہے . اور انسان کے اندر کسی بھی مرض کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہتی .خدا نے انسان کے اندر ایسا مدافتی نظام رکھا ہوا ہے کے وہ بیماریوں کا مقابلہ کرتا ہے . جس کی وجہ سے کئی چوٹی موٹی بیماریاں انسان کے پاسس نہیں بھٹکتی لکن مرض کا حملہ ہو بھی تو یہ نظام اس کا پورا پورا مقابلہ کرتا ہے .جس سے انسان جلد صحت یاب ہو جاتا ہے .اور جب انسان کے اندر کا مدافتی نظام ہی ختم ہو جائے تو پھر کسی بھی بیماری سے صحت کی کیا امید باقی رہ جاتی ہے .

چناچے ایڈز کا مریض اندرونی مدافتی نظام ختم ہو جانے کی وجہ سے کسی بھی مرض کا مقابلہ نہیں کر سکتا .اس لئے ہر بیماری اس پر آسانی سے حملہ کر دیتی ہے ،اور جو بیماری اسے ایک بار لاحق ہو جاتی ہے .اس کا علاج نہیں ہو پا تا ،وو بڑھتی ہی جاتی ہے اور بہت جلد اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیتی ہے .

یہ  بیماری عام طور پر ایسے لوگوں کو لاحق ہوتی ہے جو اخلاقی عتبار سے غیر مہتات زندگی گزاتے  ہیں اور عیش و عشرت کی گرز سے پیشہ ور عورتوں سے تعلقات قائم رختے ہیں .جس معاشرے م اخلاقی بے رہ روئی عام ہو گی وہی وہی یہ مرض بھی عام ہو گا .اس مرض کا آغاز مغرب سا ہوا .وہ لوگ جنسی لحاظ سے بالعموم بے رہ ہیں اسی لئے ووہی اس مرض کا پہلا نشانہ بنے .لکن آگے یہ مرض مغرب سے نہ بھی ہے تو بھی وہ لوگ اخلاکی ضابطوں کی پرواہ نہیں کرتے اور جنسی آوارگی کی زندگی بسر کرتے ہیں اس مرض کا شکار ہو سکتے ہیں .گویا بنیادی طور پر یہ مرض ان لوگو کو لاحق نہیں  ہو سکتا ہے جو اسلام کے اصولوں کے متابِک زندگی گزارتے ہیں لکن پاک ور صاف زندگی گزارنے والو کو ب یہ مرض دوسروں کے خون کے راستے لاحق ہو سکتا ہے یا استعمال شدہ سرنج کے ذریے سے ٹیکا لگوانے سا ہو سکتا ہے .

لہٰذا اس مرض سے  بچنے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی جانی چاہیے :

١ )- اسلامی اصولوں کے مطابق  پاک صاف زندگی بسر کریں .                                                                          

٢)-عیاشی اور آوارگی سے اور عیاش اور آوارہ لوگوں کی صحبت سے بچیں .                                                        

٣)--ہمیشہ نی سرنج سے استعمال کریں .                                                                                                      

٤)-خون لینے کی ضرورت پڑے تو ہمیشہ کسی قریبی رشتےدار یا کسی ایسے شکس سے لیں جو صحت مند ہو اور پاک صاف زندگی بسر کرتا ہو .کوئی شکس کتنا ہی ہمدرد کو نہ ہو اگر عیاشی کی زندگی بسر کرتا ہو تو اس سا ہر گز خون نہ لیں .

اس تارہا کسی بھی اجنبی سا خون حاصل نہ کریں جن م کے پیشہ وار لوگ بھی ہو سکتے ہیں حتی الامکان براہ راست تندرست اور نیک انسان سے خون حاصل کریں .لکن مجبوری کی حالت م جب کوئی اور صورت نہ ہو تو ڈاکٹر کے اطمینان کے مطابق قابل اعتماد بلڈ بنک سے خون حاصل کریں.اس سلسلے م بی احتیاطی ایڈز م مبتلا کر سکتی ہے اور اچھے بھلے نیک انسان کو دوسروں کی نظر میں مشکوک بھی بنا سکتی ہے .



About the author

160