Click For Full Read کم عمری میں شادی کے چند فوائد

Posted on at


اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) شادی کی تیاریوں کا جھنجھٹ کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا ہے لیکن یہ ذمہ داریوں کے ان بوجھ سے کم ہی ہوتا ہے جو کہ شادی کی صورت میں مستقلاً گلے پڑ جاتی ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں شادی کی اوسط عمر میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ تازہ ترین سروے کے مطابق خواتین میں شادی کی اوسط عمر27برس جبکہ مردوں میں29برس ہوچکی ہے اس کے باوجود بھی شادی جتنا جلد کی جائے ، اسی قدر بہتر ہوتا ہے اور اس کیلئے ماہرین تعلقات کے پاس چند ٹھوس دلائل بھی موجود ہیں۔کم عمری میں شادی کی صورت میں لڑکا اور لڑکی دونوں ہی معاشی طور پر زیادہ مضبوط نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے میں انہیں پہلا سبق یہ ملتا ہے کہ وہ اپنی چادر دیکھ کے پاو¿ں پھیلانا سیکھ جاتے ہیں۔ انہیں خودبخود ہی بچت کی عادت پیدا ہوجات ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو جان جاتے ہیں کہ خوشیاں پیسے سے حاصل نہیں کی جاسکتی ہیں۔ اس وقت آپ کے پاس پر آسائش گھر یا گاڑی نہیں ہوتی ہے لیکن محبت سے بھرا دل ضرور ہوتا ہے جو کہ محبت کرنا سکھا دیتا ہے۔
ازدواجی زندگی سے قبل اور بعد کی زندگی میں بے حد فرق ہوتا ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے سے خواہ کسی قدر محبت کیوں نہ کرتے ہوں،

وہ دو علیحدہ علیحدہ خواہشات کے مالک انسان ہوتے ہیں۔ کم عمری میں شادی کا یہ فائدہ ہوتا ہے، کہ اس وقت انسان اپنی عادات میں لچک پیدا کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے، اور اس کی عادتیں پختہ نہیں ہوئی ہوتی ہیں۔ یوں شادی کے بعد ایک دوسرے کے مزاج کے مطابق زندگی کو ڈھالنے کا عمل بے حد آسان اور نہایت ہموار انداز میں مکمل ہوجاتا ہے۔ دونوں اپنی اپنی عادات اور طریقہ زندگی اپنانے پر زور دینے کے بجائے ایک ایسا طرز زندگی اپنا لیتے ہیں جس میں دونوں ہی خود کو پرسکون محسوس کریں۔کم عمری میں شادی کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنی ذہنی و جسمانی بڑھوتری کا کچھ حصہ ایک ساتھ گزارتے ہیں۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک کے دوسرے کے ساتھ زندگی کے نئے تجربے کرنے کا موقع ملتا ہے۔زندگی میں درپیش چیلنجز کا ایک ساتھ سامنا کرنا ممکن ہوتا ہے۔ ایک ساتھ تعلیم مکمل کرنا ، ایک ساتھ نوکری شروع کرنا اور ہر کام ایک ساتھ کرنے کا رومانوی احساس میاں بیوی کو ایک ایسی ان دیکھی ڈور میں باندھ دیتا ہے جس کی بدولت دونوں کیلئے ایک دوسرے کے بغیر رہنے کا تصور بھی محال ہوجاتا ہے اور یوں شادی کا بندھن بھی زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے۔

 

 



About the author

160