Muhabat

Posted on at


امام اصمعی لُغت کے بہت بڑے اِمام گُزرے ہیں۔ امام صاحب کسی دوسری بستی میں درس و تدریس کے لئے جایا کرتے تھے ایک دِن حَسبِ معمول آپ تشریف لے جا رہے تھے کہ دریا کے کنارے پڑے ایک بڑے پتھر پر ایک نوجوان کا یہ شعر لکھا ہوا دیکھا۔
یَا مَعشَر العُشّاقِ باِللہِ خَبِّرُو
اِذا حَلَّ عِشقُٗ بِا الفَتٰی فَکیفَ یَصنَعُ
اے عاشقوں کی جماعت تُمہیں اللہ کا واسطہ مجھے یہ بتاؤ کہ جب کِسی نوجوان کو عِشق ہو جاتا ہے تو وہ کیا کرے۔۔؟
اِمام صاحب نے اُس شعر کے جواب میں نیچے یہ شعر لکھ دیا۔
یُوَارِی ھَواءُ وَ یَکتُمُ سِرَّہُ
یَخشَعُ فِی کُلِّ الاُمُورِ و یَخضَعُ
وہ اپنی مُحبت کو چُھپا کر رکھے اور اپنے راز کو چُھپا کر رکھے اور ہر حال میں اللہ سے ڈَرتا رہے اور اللہ کے سامنے عاجزی کرتا رہے ۔
دُوسرے دِن پھر اِمام صاحب کا وہاں سے گزر ہوا تو دیکھا کہ اُن کے شعر کے نیچے اُس نوجوان نے جواباً شعر لکھا ہے۔
فَکَیفَ یُوَارِی وَالھَوَا قَاتِلُ الفَتٰی
فِی کُلِ یومٍ قَلبُہٗ یَتَقَطَّعُ
وہ اپنی اس مُحبت کو کیسے چُھپائے اور حال یہ ہے کہ محبت تو اُسے مار ڈالنے والی ہے اور روز بروز اُس کا دِل ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا جا رہا ہے۔
امام صاحب نے اُس شعر کا جواب کچھ یوں دیا۔
فَاِن لَم یَجِد صَبراً بِکِتمَانِ سِرِّہٖ
لَیسَ لَہٗ شَئُٗ سِوَا المَوتِ اَنفعُ
اگر وہ صبر نہیں کر سکتا اور اپنا راز نہیں چُھپا سکتا تو اُسے چاہئیے کہ وہ مر جائے کیونکہ موت کے سِوا اُسے کوئی شے فائدہ نہیں دے سکتی۔
اگلے روز جب اِمام صاحب کا وَہاں سے گزر ہوا تو دیکھا کہ اُن کے شعر کا جواب نوجَوان نے کچھ یوں دیا ہے،،،
سَمِعنَا اَطَعنَا ثُمَّ مِتنَا فَبَلِِّغُ
سَلَامِی اِلٰی مَن کَانَ لِلوَصلِ یَمنَعُ
ہم نے سُن لیا اور مان لیا اور ہم مَر گئے لِہٰذا ہماری طرف سے یہ پیغام ہر اُس شخص کو پہنچا دینا جو کِسی کو سچی مُحبت کرنے سے روکتا ہے۔۔۔
امام صاحب نے پتھر کے ساتھ دیکھا تو سفید چادر کے نیچے اُسی نواجون کی لاش پَڑی تھی۔۔۔



About the author

160