nice

Posted on at


روٹھا تو شہر خواب کو غارت بھی کرگیا

پھر مسکرا کے تازہ شرارت بھی کرگیا

شاید اسے عزیز تھیں آنکھیں میری بہت

وہ میرے نام اپنی بصارت بھی کرگیا

منہ زور آندھیوں کی ہتھیلی پہ اک چراغ

پیدا میرے لہو میں حرارت بھی کرگیا

بوسیدہ بادبان کا ٹکڑا ہوا کے ساتھ

طوفاں میں کشتیوں کی سفارش بھی کرگیا

دل کا نگر اجاڑنے والا ہنر شناس

تعمیر حوصلوں کی عمارت بھی کرگیا

سب اہلِ شہر جس پہ اٹھاتے تھے انگلیاں

وہ شہر بھر کو وجہ زیارت بھی کرگیا

محسن یہ دل کہ اس سے بچھڑتا نہ تھا کبھی

آج اس کو بھولنے کی جسارت بھی کرگیا



About the author

awais-muneeb

Earning free money

Subscribe 0
160