PAR T 2)پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کی وجوہات

Posted on at


بڑھتی ہوئی آبادی کی سفری ضروریات پوری کرنے کے لیے سالانہ گاڑیوں کی تعداد میں 2 فی صد اضافہ  سے زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 70 فی صد گاڑیاں اپنی عمر پوری کر چکی ہیں اور مضر صحت کالا دھوں چھوڑتی ہیں۔ پاکستان میں چونکہ زیادہ تر سیسہ ملا پٹرول استعمال ہوتا ہے جس سے موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کے ساتھ سیسہ بھی خارج ہو کر  ہوا، پانی، زمین اور پودوں کی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔


آج کل ڈبوں میں بند کھانے اور پولی تھیں لفافوں کے زیادہ استعمال کی وجہ سے  کوڑے کرکٹ کی نوعیت اور مقدار میں تبدیلی آتی جا رہی ہے۔ کارپوریشن اور میونسپل کمیٹیاں اس کوڑے کرکٹ کو ٹھکانہ لگانے میں ناکام ہیں۔ گھروں ، ہوٹلوں، صنعتوں اور ہسپتالوں سے پیدا ہو نے والا کوڑا کرکٹ عام طور پر شہروں کے اردگرد یا اندر نشیبی علاقوں میں پھنیک دیا جاتا ہے  جس سے ماحولیاتی آلادگی اور بڑھ جاتی ہے۔


شہروں میں گٹر کا پانی گھروں، کارخانوں، لیبارٹریوں ، ہسپتالوں وغیرہ کے استعمال شدہ ضائع پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ سیورج کا یہ پانی شہروں کے اردگرد اگائی جانے والی سبزیوں، چارے اور دیگر فصلوں کی آبپاشی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس طرح گندے پانی میں موجود زہریلے کیمیائی مادے سبزیوں اور فصلوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر شہروں میں سیوریج کا نظام ناقص اور ناکافی ہے۔ جو بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔ گٹر عام طور پر ابلتے رہتے ہیں، اور اس طرح بھی ماحولیاتی آلودگی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔


آبادی میں تیز رفتار اضافے کے باعث کاشتکاری کا فطری نظام تباہو رہا ہے۔ آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیمیائی کھادیں استعمال کی جارہی ہیں۔ کیمیائی دوائیں اور کیمیائی کھادوں کے استعمال سے زمین کی پیداوار میں اضافہ ضرور ہوتا ہے تاہم ان کے صحیح استعمال سے ناواقف اور غیر منظم استعمال سے  زمین اور پودوں پر منفی اثرات ہو رہے ہیں یعنی ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔


جنگلات کسی بھی ملک کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ان سے آب و ہوا اور ماحول کی اصلاح ہوتی ہے، آلودگی کی سطع کم ہوتی ہے۔ زہریلی اور ضرر رساں گیسوں کے اثرات کے تدارک کے لیے زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہے جو درختوں سے میسر ہو سکتی ہے، لیکن پاکستان میں جنگلات کی شدید کمی ہے اور ہمارے جنگلات کا رقبہ ملک کے مجموعی رقبے کا صرف ساڑھے چار فی صد ہے جبکہ عالمی معیار کے مطابق اسے 25 فی صد ہونا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ موجودہ رقبہ بھی جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے باعث مزید کم ہوتا جا رہا ہے۔ صنعتوں اور کاروباری ضروریات کے لیے جنگلات کا بے تحاشا کٹاؤ ہو رہا ہے ۔ اس سے ملکی جنگلات کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں   اور خیال کیا جا رہا ہے کہ ملک میں آنے والے وقتوں میں جنگلات ختم ہو جائیں گے ۔ جس کی وجہ سے ہوا کی آلودگی، پانی کی آلودگی، لکڑی کی پیداوار میں کمی، موسم میں گرمی، بیماریاں اور چند پرند کے ختم ہونے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔   



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160