Part Iرشتوں کی اہمیت ہماری ذندگی میں

Posted on at


 

ہماری روز مرہ کی زندگی میں رشتے اور ان کی اہمیت سے انکار نہی کیا جاسکتا ۔کیونکہ ہمارا واسطہ ان سے ہر وقت رہتا ہے۔ رشتے اور تعلقات ہماری حیات کا وہ بہترین سر مایہ ہیں جن کا متبادل ہمیں دنیا میں کوئی اور کبھی نہی مل سکتا۔ان رشتوں اور تعلقات میں وہ جذبہ کار فرما ہوتا ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھتا ہے۔ہمیں ایک دوسرے کے دکھ ، درد اور خوشیوں میں ایک دوسرے کے نزدیک لے آتا ہے۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ذندگی میں ہمیشہ اتار چڑھائو رہتا ہے۔ کبھی دکھ اور پریشانیاں آتی ہیں تو کبھی خوشیاں ہمارے قدم چومتی ہیں۔ان مختلف موقعوں پر ہمارے قریبی رشتے اور ہمارے تعلقات ہمیں بہت تقویت دیتے ہیں۔اور ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہم اکیلے نہی ہیں۔

 

یہی رشتے اور تعلقات خاندان اور برادریوں کی تشکیل کا بھی سبب بنتے ہیں۔ یہ خاندان اور برادریاں ہماری ذندگی میں امن و سکون اور استحکام لانے کے لئے بہت ضروری ہیں۔ مشرق میں  اللہ عزوجل کے رحم و کر اور فضل سے خاندانی نظام موجود ہے مگر اس کے بلکل برعکس مغرب میں یہ نظریہ سرے سے موجود ہی نہی ہے۔ان کی ذہنی اور معاشرتی انتشار اور بگا ڑ کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان کے پاس رشتوں کی اہمیت اور قدر بلکل نہی ہے۔

 

اقوام مغرب میں رشتوں کی اہمیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ذندگی ایک بدترین نمونہ بن چکی ہے۔وہ لوگ مادر پدر آزاد ہو کر اپنی نفسانی خوہشات کو غلط طریقے سے پورا کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں شادی کا کوئی تصور نہی ہے۔ بغیر شادی اور نکاح کے لڑکا اور لڑکی لمبے عرصے تک ایک ہی بستر پر سوتے ہیں اور جب ان کا دک ایک دوسرے سے بھر جاتا ہت تو وہ کوئی نیا ساتھی تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

 

اور جو لوگ شادی شدہ ہوتے ہیں انہیں اپنے خاندان کی بلکل بھی پروا نہی ہوتی۔ شوہر نوکری کر رہا ہے تو بیوی فنکشن اٹینڈ کر رہی ہے۔ اور بچوں کا تو پتا ہی نہی کہ کیا کر ہرے ہیں۔ تربیت تو دور کی بات ہے انہیں. اپنی آنکھوں سے ہی دور کر دیا کاتا ہے۔ بچپن سے ہی ان کو چائلڈ ہاو س یا نرسری میں بھیج دیا جاتا ہےرشتوں کی اہمیت کے بارے میں مزید جاننے کے لئے میرا اگلا بلاگ ضرور پڑھیں۔

 

 By

Wiki Annex

Blogger :- Filmannex

Previous Blog Posts :- http://www.filmannex.com/blog-posts/wiki-annex

                                                                                                        

 

 



About the author

160