(part2)پاکستان میں آثار قدیمہ کے خزانے

Posted on at


حال ہی میں کچھ مقامات دریافت کیے گئے ہیں جو موہنجوداڑو کے آثار سے بھی قدیم ہیں ۔ مثال کے طور پر خیر پور کے نزدیک کوٹ ڈی جی۔ اب ان تمام دریافتوں کی وضاحت میں شدید مشکل ہے یعنی تصویری  مسودے کی وضاحت کا مسئلہ جو موہنجو داڑو سے ملے ہیں۔


ایک اور تاریخی اہمیت کی حامل جگہ بھنبور ہے۔ بھنبور کا حالیہ کام پاکستان کے لیے ذیادہ دلچسپ ہے جو کراچی سے 40 میل دور دریائے سندھ سے الگ شدہ حصہ ہے اور کراچی کے رہائشیوں کے لیے ذیادہ قابل رسائی ہے۔ بھنبور کی خاص دلچسپی اس بات کے امکان مین پوشیدہ ہے کہ یہ دیبل کا وہ مقام ہے جہاں 712ء میں محمد بن قاسم اترے تھے۔ اس جگہ کی اصل گردونوح کا کام آثاری بحث کے لیے مواد ہے اور اگر چہ بھنبور کو امکان سمجھا گیا تھا لیکن سنجیدہ کام 1958ئ تک شروع نہیں کیا گیا تھا۔ اب تک کے نتائج کوشش کی حد تک بہت اچھے ہیں اور ایک مسجد پہلے ہی دریافت کی جاچکی ہے جو بظاہر مسلم دور کے ڈیڈھ سو سال بعد کا معلوم ہوتا ہے اور یہ محمد بن قاسم کے زمانے کے بہت قریب ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس مقام سے مزید آثار ملیں گے۔ اور اس مرحلے پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس کھدائی میں کتنی تو سیع ہو گی۔


برہمن آباد میں بھی کام ہونا چاہیے جو حیدر آباد سے 43 میل جنوب مغرب کی طرف ہے۔ جہاں محمد بن قاسم کے حریف داہرنے آخری قیام کیا تھا۔


مذہبی ، روحانی اور عسکری جیسے مختلف اثرات کی اتار چڑھاؤ نے پاکستان کے آثار قدیمہ پر مختلف نشانیاں چھوڑی ہیں۔ بدھ مت کے متعلق یہ کہنا ناجائز ہو گا کہ یہ صرف جنوب مغرب تک محدود ہے بلکہ یہ سندھ تک پھیل گیا ہے اور میر پور خاص، حیدر آباد کے مشرق میں۔ بدھ مت کی آٹھویں اور ساتویں صدی کی مہریں بھی دریافت ہو چکی ہیں۔ کچھ خالص یاد گاریں اس ملک کی ترجمانی کرتی ہیں جہاں یہ پیدا ہوئیں ہیں ٹھٹھہ کی ٹائلوں والی مشہور مساجد  اور زیارتیں ایسی خالص ایرانی ہیں جیسے وہاں سے منتقل کی گئی ہوں۔


تاہم ان تمام چیزوں کی اہمیت اور دلچسپی کے باوجود  پاکستان کی وہ قدیم یادگاریں صحیح  دلچسپی کا باعث ہیں جو مغلیہ دور سے منسلک ہیں۔ مغلیہ دور سے منسلک یادگاروں کی اہمیت اس لیے  ذیادہ ہے کیونکہ ان کو اچھی طرح محفوظ کیا گیا اور یہ قابل حصول ہیں۔


اس لحاظ سے لاہور اگرچہ ایک قدیم شہر ہے لیکن قدرت نے اسے بہت کچھ عطا کیا ہے۔ لاہور مغلوں کے زوال کے وقت  برے دنوں کا شکار تھا اور خاص دور پر پنجاب میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد کے دور میں اس کی حالت خراب تھی ۔ لیکن لاہور پھر بھی سیاحوں کے لیے ایک بڑا انعام ہے۔ یہاں خاص طور پر وہ طرز دیکھا گیا ہے جو مغل فاتحین اور ہندو سنگی مجسمہ سازوں  اور معماروں کے فن سے پیدا ہوا تھا ۔ یہ نئے حکمرانوں کے بنائے گئے محلات اور باغات اور مقبروں پر لاگو ہوتا ہے۔ ان میں انسانی اور حیوانی قسموں کا آزادانہ استعمال کیا گیا ہے۔ اور تفصیلات کی  طوالات بلاشبہ سٹائل اور تصور میں ہندوانہ ہے۔ لاہور میں سیاحوں کے دیکھنے نہت سی قدیم  یادگاریں ہیں جیسے پرانا شہر، باشاہی مسجد( اورنگ زیب کے دور کا ایک اہم یاد گار)، لاہوری قلعہ، اور ان عظیم خاندانوں  کے گھر  جو کبھی یہاں رہتے تھے ۔ کچھ پرانی عمارتیں  مختلف انداز سے استعمال کی گئیں ۔ جس کے لیے کبھی یہ بنی تھیں۔ ان میں سے انار کلی کا مقبرہ ہے۔ انار کلی شہزادہ سلیم سے پیار کرتی تھی ۔ جب شہزادہ سلیم بادشاہ بنا اور جہانگیر کا نام اپنایا  تو سلیم نے انارکلی کے نام سے زیارت تعمیر کی اپنے   پیار کے ثبوت کے طور پر۔ بعد میں مغلیہ دور کے زوال کے دنون میں یہ عمارت رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کی گئی اور ایک بار اطالوی امیر فوجی کے زیر استعمال تھی   جو رنجیت سنگھ کا ایک جرنیل تھا۔ اب اس میں آثار قدیمہ رکھے گئے ہیں اور دیکھنے کے قابل ہیں۔ 



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160