Plagiarism - علاقائی زبانوں میں ادبی سرقہ

Posted on at



پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں تحقیقی کاغذات یا علاقائی زبانوں میں علماء کرام کے مقالوں میں ادبی سرقہ کا پتہ لگانے والا سافٹ ویئر نہیں ہے- ملک میں کسی بھی نجی یا سرکاری یونیورسٹی میں فارسی، عربی، کشمیریت، اردو، پنجابی اور اسلامی علوم کی تحقیق کے کاغذات یا مقالہ میں ادبی سرقہ کی چیکنگ کا سافٹ ویئر نہیں ہے- جبکہ پنجاب یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بتایا "اکیلے پنجاب کی یونیورسٹیوں میں مختلف زبانوں میں 400 سے زیادہ نشستوں پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پروگرام ہیں- یہ کہنا درست ہو گا کہ ہر سال 500 طالب علم اپنے تحقیق کے کاغذات یا مقالے اپنی اپنی یونیورسٹیوں میں جمع کرواتے ہیں، لیکن کسی یونیورسٹی کے پاس ادبی سرقہ کو چیک کرنے کا کوئی قابل اعتماد طریقہ نہیں ہے- اس کے برعکس انگریزی زبان میں جتنے بے مضامین ہیں ان میں تحقیق دستاویز کے متن میں ادبی سرقہ کا پتہ لگانے والا سافٹ ویئر موجود ہے" ایک اور فیکلٹی رکن نے کہا کہ ان محکموں میں کئی فیکلٹی کے ارکان نے اپنے ساتھیوں اور ان کے ساتھی محققین کے خلاف ادبی سرقہ کی شکایات دائر کی ہیں، لیکن ایک مستند سافٹ ویئر کی کمی کی وجہ سے ان کےخلاف کروائی نہیں کی جاتی



اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد مختار نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک میں علاقائی زبانوں میں ادبی سرقہ کا پتہ لگانے کے لئے کوئی سافٹ ویئر دستیاب نہیں ہے لیکن اگلے دو سالوں میں اس مسلے کا حل نکلنے کی امید کی جا سکتی ہے- انگریزی کے علاوہ کچھ بین الاقوامی زبانوں کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد پر سافٹ ویئر دستیاب ہیں لیکن ہماری علاقائی زبانوں کے لئے کوئی بھی موجود نہیں ہے- انہوں نے مزید بتایا کہ ہماری زبانوں میں زیادہ تر کی بنیاد عربی ہے اگر ایک عربی زبان میں سافٹ ویئر مارکیٹ میں دستیاب ہو جاتا ہے تو دیگر زبانوں کے لئے سافٹ ویئر بھی تیار کیا جا سکتا ہے- ڈاکٹر مختار کے مطابق ہمیں اپنے طالب علموں کو شروع سے ہی ادبی سرقہ سے بچنے اور اس کے نقصانات کے بارے میں تعلیم دینی چاہئے


 “Plagiarism is like robbing somebody. We should educate our students not to commit this crime"


 بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے رجسٹرار ملک منیر حسین کے مطابق اس مسلہ کا حل اساتذہ کے ہاتھ میں ہے- انٹرنیٹ کے آنے سے پہلے بھی طالب علم تحقیق کیا کرتے تھے لیکن ہم نے کبھی ادبی سرقہ کے بارے میں نہیں سنا تھا- مسئلہ اب یہ ہے، ہر یونیورسٹی کے اساتذہ اعزاز حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ایم فل کے طلباء کی نگرانی کرنا چاہتے ہیں- ایک ہی وقت میں 40 یا اس سے بھی زیادہ ایم فل کے طالب علموں کی نگرانی کرنے والا ایک استاد کیسے معیار کو یقینی بنا سکتا ہے- مزید کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو سختی کے ساتھ نگرانی کرنی چاہئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی پالیسی پر تاکہ ان مسائل کا حل نکالا جا سکے


سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ مطبوعات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسین پراچہ نےعلاقائی زبانوں میں سافٹ ویئر کی کمی کو "ایک مناسب مسلہ" کہا ہے، اور وہ یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کے آئندہ اجلاس میں اس مسلے پر آواز اٹھائیں گے- انہوں نے کہا اس طرح کے سافٹ ویئر کو بنانا اتنا مشکل کام نہیں ہے، اس پر کام شروع کر دینا چاہئے


پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر امین اطہر نے بتایا کہ انگریزی زبان کی تحقیق میں ادبی سرقہ کا پتہ لگانے کے لئے سافٹ ویئر موجود ہے اور اس میں بھی کچھ خامیاں موجود ہیں- اگر ہمیں کوئی ادبی سرقہ کی شکایات موصول ہو تو ہم دوبارہ مینوئل طریقے سے چیک کرتے ہیں کہ کوئی ایسا مواد شامل ہے یا نہیں- تاہم، انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس طرح کے سافٹ ویئر علاقائی زبانوں کے لئے دستیاب نہیں ہیں- ڈاکٹر اطہر کے مطابق علاقائی زبانوں کے لئے خصوصی سافٹ ویئر تیار کیا جانا چاہئے



ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ترجمان نے علاقائی زبانوں میں سافٹ ویئر کی غیر موجودگی میں، صرف ماہرین ہی ادبی سرقہ کا پتہ لگا سکتے ہیں- ایچ ای سی ایک پالیسی بنا رہی ہے اگر کوئی ادبی سرقہ کا الزام کسی دوسرے پر لگاتا ہے اور تحقیقات میں چوری ثابت نہیں ہوتی، تو الزام لگانے والے کے خلاف کروائی شروع کی جائے گی، ترجمان نے مزید کہا کہ عربی زبان میں ادبی سرقہ کا پتہ لگانے کے لئے ایک سافٹ ویئر تیار کر لیا گیا ہے اور ہم موجودہ سال میں اس کو حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں- دیگر علاقائی زبانوں کے لئے سافٹ ویئر مارکیٹ میں فی الحال دستیاب نہیں ہیں



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160