Siddique-e-Akbar

Posted on at


سیرتِ سیِّدُنا صدّیق اکبر﷛ کے چند گوشےاور مختصر فضائل و مناقب

خلیفہِ اوّل حضرت سیِّدُناابو بکر صدّیق ﷛ کا اسم مبارک عبداللہ ،کنیت ابو بکر اور لقب صدّیق و عتیق ہے۔ صدّیق کےمعنیٰ  ہیں بہت زیادہ سچ بولنے والا اور عتیق کا معنیٰ ہے آزاد۔

    نبی کریم ﷺ نے آپ ﷛کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا : اَنْتَ عَتِیقُ اللّہِ مِّنَ النَّار یعنی تو اللہ کی طرف سے نارِدوزخ سے آزاد ہے۔(ترمذی ج2)

 ✩ عامُ الفیل( یعنی جس سال مردود اَبرہہ بادشاہ  ہاتھیوں کے لشکر کیساتھ کعبہ پر حملہ آور ہوا تھا) کے اڑھائی برس بعد مکہ مکرّمہ میں پیدا ہوئے۔

 ✩ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ✩آپ ﷛ کی چار پشتوں کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ صحابیت سے سرفراز فرمایا۔

آپ ﷛ کے والد حضرت ابو قحافہ عثمان، آپ ﷛ کی والدہ حضرت ام الخیر سلمیٰ ،صاحبزادےعبداللہ ، محمد،عبد الرحمٰن۔ صاحبزادیاں اسماء ، ام کلثوم، عائشہ۔ پوتے محمدبن عبد الرحمٰن آپ ﷛کے علاوہ کسی اور صحابی کو یہ شرف اور مقام حاصل نہ ہوا۔(تفسیر خازن ج 6)

حدیث 1 :  مجھے کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو ابو بکر کے مال نے دیا ۔(سنن ابن ماجہ ج1)

حدیث 2 : ہر شخص کے احسان کا بدلہ ہم نے اسے دیدیا سوائے ابوبکر کے ، کہ ہم پر وہ احسان ہے جس کا بدلہ  انہیں اللہ تعالیٰ روزِ قیامت عطا فرمائے گا۔

(ترمذی ج2)

حدیث 3 :  نبی کریم  نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر  کو دیکھا تو فرمایا: یہ دونوں (میرے لیئے) کان اور آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (ترمذی ج2)

حدیث 4 :  ہر نبی کیلئے دو  وزیر آسمان والوں میں سے اور دو   وزیر  زمین والوں میں سے  ہیں۔سو آسمان والوں میں میرے دو   وزیر جبرائیل و میکائیل ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو  وزیر  ابو بکر او ر عمر ہیں۔(ترمذی ج2)

✩  حضرت ابو بکر صدّیق ﷛ نے امّت میں سب سے پہلے تبلیغ کی اور ان کی تبلیغ سے حضرت عثمان غنی ، حضرت عبد الرّحمٰن بن عوف، حضرت زبیر،     حضرت  طلحہ ،حضرت سعد بن ابی وقاص اورحضرت عثمان بن مظعون ﷡ ایسے اکابر صحابہ کرام اسلام لائے۔

✩ نبی اکرم  نے حضرت ابو بکر صدّیق ﷛ کو حج میں مسلمانوں کا امیر بنایا۔

 نبی مکرّم  نے دو مرتبہ حضرت ابو بکر صدّیق ﷛ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔

 اللہ کے محبوب نےایام علالت میں حضرت ابو بکر صدّیق ﷛ کو امام بنایا اور حضرت ابو بکر صدّیق ﷛نے سترہ نمازیں پڑھائیں۔

✩ وصالِ ظاہری سے قبل  حضرت ابو بکر صدّیق ﷛ نے وصیَّت فرمائی کہ میرے جنازے کو شاہِ کونین ﷺ کے روضہ انور  کے پاک در کے سامنے لا کر رکھ دینا  اور   اَلسَّلامُ علیک یا رسول اللہ   کہہ کر عرض کرنا : یا رسول اللہ ﷺ ابو بکر آستانہ مُقدس پر حاضر ہے۔ اگر دروازہ خودبخود کھل جائےتو اندر لے جانا ورنہ جنّت البقیع میں دفن کر دینا۔  جنازہ مبارکہ کو حسبِ وصیَّت  جب روضہ اقدس کے سامنے رکھا گیا اور عرض کیا گیا : اَلسَّلامُ علیک یا رسول اللہ  ابو بکر  حاضر ہے۔ یہ عرض کرتے ہی تالا خودبخود کھل گیا اور آواز  آنے لگی : اَدْخِلُوا الْحَبِیْبَ  اِلَی   الْحَبِیْبِ   فَاِنَّ  الْحَبِیْبَ  اِلَی  الْحَبِیْبِ  مُشْتِاقٌ یعنی محبوب کو محبوب سے ملا دو کہ محبوب کو محبوب کا  اشتیاق ہے۔(تفسیر کبیر ج10 ص168) سبحان اللہ ﷯! حضرت ابو بکر صدّیق﷛ اور صحابہ کرام ﷡ کا یہ عقیدہ  تھا کہ سرکار ﷺ بعدِ وصال بھی قبر انور میں زندہ  و حیات اور صاحبِ تصرُّفات و اختیارات ہیں۔

تو زندہ ہے و اللہ  تو زندہ ہے و اللہ                               مرے چشمِ عالم سے چُھپ جانے والے

✩ 2 سال 7 ماہ مسندِ خلافت پر جلوہ افروز رہ کر 22 جمادی الثّانی 13 ھ پیر کا دن گزار کر وفات پائی۔

    حضرت عمر ﷛ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور روضہ اقدس میں سرکارِدوعالمﷺ کے پہلومقدس میں دفن ہوئے۔

مرتّب:  ابو النُّورمحمد ظہور احمد قادری    (خطیب جامع مسجد فیضانِ علی ﷛  (اہلسنّت)  ناظم آباد 4)


TAGS:


160