نیویارک/یاپیریس شہرکے فیشن کےچہرے: ڈیزائنر Sophie Theallet

Posted on at

This post is also available in:

 

ذرا تصور کریں کہ ایک کھڑے جسم کو ریشم میں لپیٹا جاۓ اور ریشم جسم کے اردگرد لگاتے جائیں تو ایک سادہ تعمیر کے ساتھ نسوانیت بن رہاہے۔ جسم کو کپڑے میں لپیٹنے کا عمل ان چیزوں کی قدر اور اہمیت کا اندازہ لگاتا ہے جسکو قیمتی بنایا گیا ہے جسطرح دونوں ہاتھ ایک پرندا پکڑتا ہیں اتنا زیادہ مضبوط نہیں کہ سانس کا بہاؤ ختم ہوجاۓ لیکن محفوظ اغوش میں لینے کیلۓ اِتنا زیادہ ڈھیلا بھی نہیں کہ  گہری خاموشی کے دوران باقی رہنا محسوس کریں۔

 کپڑے عورت کے جسم کی خوبصورتی کیلۓ دھاگے کے خلیات کو جال کرکے تخلیق کیا گیا ہے ان خلیات جوکہ جلد بناتا ہے تاکہ عورت ہر قدم  کیساتھ ھم اہنگی اور اعتمادی کیساتھ حرکت کریں۔ ذات پات سے ہٹ کر خوبصورتی ضروری ہے لیکن پہنے ہوۓ لباس کے برابری بیرونی انداز کے ذریعے اندرونی روح کو اگاہ کرنے میں صرف مدد کر سکتا ہے۔  collages کے صف ارائی کے ساتھ  Sophie Theallet رنگوں لڑکی کی موجودگی تانےاور بانے کے درمیان ٹھوس تعلقات دکھاتی ہے جبکہ کھلے جگہ کے اشاروں کیلۓ اجازت دے رہے ہیں تاکہ دکھانے والے کو تصور کی حالت میں جگائیں۔ خواہ Theallet نے بنا قدم ملاکر چلنے کے دوران ٹانگ کو ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا ہے یا ایک شفاف جلد کے خوبصورتی زوردار لھجے میں ادا کریں، اُس کی مجموعات نوجوانوں کے وجود اور اسرار بیان کرنے کے لئے جاری continue  رکھے جو ایک عورت کی ترقی کی صلاحیت کو ٹھیک کرتا ہے۔

تیلیٹ کے پسند کی بافت خاص طریقے پر توجہ دینی ہے جس میں یہ جسم کو چھو جائیگا اور یہ طریقہ ایک عورت کی چاہت اورایک عورت کی ضروریات پرپوری توجہ دی گی۔ مختلف برتن اور دیگرچیزیں عورت کی پیڑوں کے قطارکے اردگرد چیزوں کے مجموعے نازک تحفظ کے تصور کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ایشیائی ثقافت اور خاتون کے رسم ورواجوں کے گزرے ہوۓ وقت کے تاریخ کا حوالہ دیتی ہے۔ ہر لباس منفرد نوعیت کی طرف چلتا ہے جسکو اسکے دربان نے اپنا یا ہوا ہے۔ دربان نے اسے خیالی اور صاف شکل دیا ہے۔  صرف ایک لڑکی ایک راج کماری کی لباس میں ڈھنپنے  کی خواہش کر سکتی ہے۔  اول خاتون مشیل اوباما تیلیٹ کے ساخت کو پہنے ہوئے دیکھی گئ ہے وہ پیشکش کے جدید معیار کی کوئی بات کے بغیر ایسے خوبصورت سُرگاتی ہے جوکہ بلاشبہ ایک نیا فیشن شروع کرنے والی ہے۔

ہر نازک حالت کیساتھ تبدیلی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ایک نظریے سے رن وے کے پلیٹ فارم پرجس پرایک پھول کے مانند لڑکی ایک اچھی ثقافتی وردی میں اپنے اپکو دبا دیتی ہے جبکہ وہ سانس کیلۓ کمرہ بھی چھوڑ رہی ہے ۔ تیلیٹ ھوشیاری سے، اسکی مغرورقیمتی کپڑے بنانے کے علم کے ہر اجتماع کو دلکشی کیساتھ بڑھانے کیلۓ استعمال کرتاہے اور شاہد وہ لباس بننے کے تاثیر مشہور Jean-Paul Gaultier  کیساتھ استعمال کرتی ہے بااختیارمادہ کے ذریعے چھید کرکہ ہنرمندی اور اثرپزیری کے ایک سطح کو نمایاں کرکے لباس بناتا ہے جوکہ ہر عورت پہننا چاہتی ہے۔ سنڈریلا ایک لمبا گول لباس ہر لڑکی کا خواب ہوتاہے یا Catherine Deneuve ' پیو ڈی این' میں محل کے ارد گرد لمبی لباس میں رقص کررہی ہے جسکو چاند یا موسم بہار نے تلقین کیا ہوا ہے۔ خوش قسمتی سے صرف احساس کافی ہے اور تیلیٹ ہر لڑکی کو ایک سچی خواہش تکمیل کیساتھ مہیا کرتاہے۔ 

ایک لمبا کالا لباس خانہ دار دھبوں کا بنا ہے۔ اُنہوں نے  خزان / سردیوں 2011 سے 2012 تک کا اجتماع ایک ساتھ پہنا جسمیں اُسکی بناوٹی جنسی اعضاء اورکولہوں کے اِرد گرد تنگ کپڑے، ان کے چھاتی اورنیچھے کھلے اعضاء توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ اس معاملے میں لمبائی چھوٹے کالے لباس کی خصوصیات کے تعریف نہیں کرتی جیسا کہ تیلیٹ نے ثابت کیا ہے کہ جنسیت تمام غیر محفوظ اعضاء دیکھنے کے بارے میں نہیں ہے لیکن اسکے بجاۓ وہ اپنی قابلیت کا استعمال کرکے خوبصورتی کی ایک ایسی صورت کی وضاحت کریں جو واپس پھیرنے کیلۓ معمولی حدود کو پارکرتے ہیں۔

 



About the author

AFSalehi

A F Salehi graduated from Political Science department of International Relation Kateb University Kabul Afghanistan and has about more than 8 years of experience working in UN projects and Other International Organization Currently He is preparing for Master degree in one Swedish University.

Subscribe 0
160