کشمیر میں استصواب راۓ کے مطالبے پر نظر ثانی کی ضرورت

Posted on at


جنرل پرویز مشرف نے کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف کرنے کے بارے میں بیان دے کر ایک شجر ممنوعہ کو ہاتھ لگانے کی جسارت کی ہے۔ گو کہ ۲۰۰۱ میں اپنے ہندوستان کے دورے کے موقع پر انہوں نے مبہم طور پر اپنے اٹل نقطہ نگاہ سے پیچھے ہٹنے کی بات کی تھی لیکن اب سے پہلے کبھی کسی پاکستانی سربراہ مملکت نے اتنے بے باک طور پر مسئلہ کشمیر کو صرف استصواب راۓ کے ذریعے حل کرنے کے ناقابل عمل ہونے کا اعتراف نہیں کیا تھااور اس مسئلے کے لیئے دوسری راہیں تلاش کرنے کا عندیہ نہیں دیا تھا۔

جنرل صاحب کے اس بیان کے بعد وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے  پاکستان کے انتہا پسند فوجی،سیاسی اور جہادی حلقوں کی جانب سے غداری کے الزام سے بچنے کے لیئے اسکے اثر کو کچھ زائل کرنے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن جو کہ حکمرانوں کے ہر کام کی بجا آوری کے لیئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اسنے جنرل پرویز مشرف کی مزکورہ تقریر کی تشہیر نہیں کی۔ جہاں تک قصوری صاحب کا تعلق ہے تو انہیں حد سے آگے بڑھ کر کشمیر میں محاذ آرائی اور مسئلے کے فوجی حل کے حامیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی چنداں ضرورت نہیں

۔استصواب راۓ یقیناً ۱۹۴۸ میں ایک باہمی طور پر تسلیم شدہ حل تھا اور ہندوستان نے اس ضمن میں اپنے وعدوں سے انحراف کیا تھا۔ لیکن پانچ دہائیاں گزرنے کے بعد اور تبدیل شدہ سیاسی و علاقائی صورتحال کے پیش نظر اب اس مطالبے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔



About the author

160