بنت حوا – حصہ اول

Posted on at


اے بنت حوا میں تیری خوبصورتی سے عشق کروں کہ تیری عصمت کی ارزانی کا ماتم کروں- میں تیری حیاء سے شرماتے ہوئے چاند کو دیکھوں کہ تیرے آنچل میں بے نیاز لہراتے ہوئے بالوں کی تصویریں دیکھوں- منے تیرے قدموں میں اپنی جنت تلاش کروں کہ تیرے پاؤں میں بندھے ہوئے گھنگرووں کی جھبکار میں کھو کر تماش بنیی کی انتہا کردوں


اسلام سے قبل بنت حوا کا مقام:


اسلام سے پہلے عورت کے مقام سے آپ با خوبی واقف ہیں- پھر بھی آپ کو بتاتا چلوں، آج سے 16 سو سال قبل جب انسانیت جہالت کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی، جہاں انسان وحشی درندے کی طرح خود انسان کا دشمن تھا- وہاں بنت حوا کو زندہ درگود کرنا معمول بن چکا تھا- لوگ ہونے گھروں میں پیدا ہونے والی معصوم بیٹیوں کو قتل کر دیا کرتے تھے- مرد و عورت کے باہمی فخر و مباہات کا سلسلہ ایسا چلا کہ عورت کو بیچارہ بنا کیا گیا یہاں تک کے تمام مذاھب میں عورت کو نفرت کا نشان سمجھا جانے لگا-


یونانیوں میں عورت کا وجود ناپاک اور شیطانی تصور کیا جاتا تھا، عورت فقط خدمت اور نفسانی خواہشات کا ذریعہ تھی- رومیوں میں عورت کو روح سے خالی شے سمجھا جاتا تھا- ساسانی بادشاہوں کے زمانے میں عورت کا شمار خریدوفروخت میں ہوتا تھا- یہودیوں میں عورت کی گواہی نا قبل قبول سمجھی جاتی تھی جبکہ ہندو یر پارسی عورت کو ہر خرابی کی جڑ، فتنہ کی بنیاد اور حقیر ترین شے شمار کیا جاتا تھا- یر قبل از اسلام عرب میں عورت کو زندہ رھنے کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا تھا یر یہ قبیح رسم اس قدر عام ہو چکی تھی کہ اہل عرب پیدا ہونے والی بچی کے ہاتھ میں مٹھائی کا ٹکڑا اور گڑیا تھما دیتے اور مٹی کا گڑھا کھود کر بچی کو اس میں بٹھا دیتے اور اس پر مٹی ڈالتے رہتے- کبھی اس ک کھیل تماشا سمجھتی رہتی یہاں تک کے وو اس بچی کو زندہ ہی دفن کر دیتے-


یہ سب کچھ اگرچہ اسلام سے پہلے ھوا کرتا تھا، لیکن دنیا میں آج کے دور میں بھی لوگ اپنی نومولود بچیوں کو مر ڈالتے ہیں یہاں تک کے زندہ دفن کر دیتے ہیں- میں اسی اور ملک کی بات نہیں کرتا، ہمارا اپنا ملک جسے ہم بہت فخر کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں اس قسم کی لعنت سے محفوظ نہیں ہے- ویسے تو اگر بیان کروں تو لکھنے کو سیاہی اور کاغذ کم پر جائے، آج بھی اس دور میں پاکستان میں عورت پر کس کس طرح کے ظلم ہوتے ہیں، اور اس میں ناصرف مرد بلکہ عورتیں بھی برابر کی شریک ہیں- اس سے پہلے آپ کو اپنے ملک میں عورت کے مقام کا ذکر کروں آپ کو کچھ اور بتانا ضروری سمجھتا ھوں-


ایک دفعہ ایک آدمی حضور اقدس حصرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا الله نے مجھے یکے بعد دیگرے بیٹیوں سے نوازا اور میں اس وقت اس قدر جہالت میں ڈوبا ھوا تہ کے باقی عربوں کی طرح میں بھی ذلت سے بچنے اور اپنا رتبہ اوپر کرنے کے لئے ان سب کو زندہ دفن کر دیتا- ایک دفعہ میں سفر پر تھا اور میرے ہیں ایک اور بیٹی نے جنم لیا، میری بیوی نے اس خیال اس کو میرے ہمسائے کو دے دیا کہ میں گھر آ کے اس کو بھی زندہ دفن کر دوں گا- جب اس لڑکی نے چلنا شروع کیا تو وہ ہمارے گھر انے لگی- جس کی وجہ سے تھوڑی دیر میں مجھے اس سے محبت اور انس ہو گی، اب میں روزانہ اس کی راہ دیکھتا او کو اپنے کندھوں پر سوار کرتا، اس کو پیار کرتا اس کا ماتھ چومتا اور جب وو اپنے گھر جانے لگتی تو میں اداس ہو جاتا- میری بیوی یہ سب دیکھتی رہی جب اس کو یقین ہو گیا کہ اب میں اس کو زندہ دفن نہیں کروں گا تو اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا، لیکن اس وقت بھی مجھے صرف اتنا یاد تھا میں م،مجھے اپنے قبیلے میں اونچا مقام پانا ہے- میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس جو تیار کرو میں اس کو بازار لی کر جاؤں گا، میری بیوی نے اس کو تیار کر دیا-  میں اپنی بیٹی کو لی کر قبرستان چلا گیا اور وہاں جا کر قبر کھودنے لگا میری بیٹی قریب ہی تھی وو خبی مرتا پسینہ صاف کرتی اور کبی نیڑے کندھے کبانے لگتی، مجھے پانی پلاتی اور میں قبر کھودتا رہا اور جب قبر مکمل ہو گئی تو میں اس کو قبر میں بٹھا کر اس میں مٹی ڈالنا شروع کر دی، وو سکوں سے بیٹھی مجے دیکھتی رہی اور جب قبر اس کے کندھوں تک آ گئی اور وہ ہل نہ سکی تو وو رونے لگی، لیکن میرے دل میں دھم نہ آیا یر میں دونوں ہاتھوں سے اس پر مٹی ڈالنے لگا، یہاں تک کے اس کے منتوں بحری چیخوں کو منو مٹی تلے دفن کر دیا.


یہ سب سننے کے بعد آپ ﷺ نے جب چہرہ اوپر اٹھایا تو آپ کا چہرہ مبارک آنسوؤں سے تر تھا.


لیکن اسلام میں عورت کو یعنی بیٹی کو باعث رحمت سمجھا جاتا ہے، آپ ﷺ جب بھی اپنی صاحبزادی اور جنت کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ سے ملنے جاتے یا وہ آپ سے ملنے آتیں تو آپ ان کا ماتھا چومتے، ان کے لئے اپنی چادر بچھا دیتے، سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتے اور اس کے ساتھ انتہائی محبت کے ساتھ پیش آتے


حضرت علی فرماتے ہیں - جب تم اپنے گھر  جاو اور کوئی چیز اپنے بچوں کے لئے لے کر آو، تو سب سے پہلے وو چیز اپنی بیٹی کو دو


اسلام میں عورت کے مقام کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، جب کسی گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے تی الله پاک اس کے ہان فرشتے بھجتے ہیں جو آ کر کہتے ہیں – اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو، وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ  کمزور جان ہے اور کمزور جان سے ویدہ ہوئی ہے جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک الله کی مدد اس کے شامل حال رہی گی


عورت کے روپ


کسی کے کیا خوب کہا ہے کہ


حسن عورت کا جادو ہے


سیرت عورت کی خوبصورتی ہے


حیا عورت کا زیور ہے


محبت عورت کا ضمیر ہے


رحم عورت کی فطرت ہے


انکسار عورت کی نشانی ہے


اچھا اخلاق عورت کا حسن ہے


اور فرض کی تکمیل اس کی منزل ہے


بنت حوا کے رشتے


عورت کے لئے رشتوں کی صورت میں سب سے اعلی مقام ماں کا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ الله نے جنت کو تمہاری ماں کے قدموں کے تلے رکھ دیا ہے، ویسے تو ماں کے بارے میں لکھنے کو بہت کچھ ہے پر ماں کے لئے بس اتنا ہی کہوں گا کہ – ماں دنیا کی وو ہستی ہے جو تمہے ہر حال میں سب سے زیادہ پیار کرتی ہے


الله پاک فرماتے ہیں کہ تم اپنی ماں کی اس رات کی تکلیف کا احسان نہیں دے سکتے جس رات اس نے تم کو جنم دیا تھا


ماں کے بعد عورت کا سب سے اہم رشتہ بیٹی کی صورت ہے، بیٹی کسی بھی گھر میں رحمت ہوتی ہے، آپ نے بیٹی سے سلوک کے بارے میں ابھی اوپر پڑھا ہے کہ کس طرح حضور ﷺ اپنی بیٹی سے محبت کرتے تھے


تیسرا رشتہ بہن کا ہے، جو کے اپنے بھائی سے سب سے زیادہ پیار کرتی ہے


چوتھا رشتہ بیوی کی صورت میں ہے، بیوی جو کہ اپنے شوہر کے لئے ایک تاج کی مانند ہوتی ہے


جاری ہے


Written By: Khurram Shehzad



About the author

DarkSparrow

Well..... Leave it ....

Subscribe 0
160