صنم تیری قسم: سنجیدہ لوگوں کیلئے 'نقصان دہ' فلم.......................................................................................................................
ہندوستانی سینما میں رومانوی فلموں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس موضوع پر دو طرح کی فلمیں بنی ہیں۔ پہلی قسم وہ، جن کا مقصد مالی لحاظ سے کامیاب ہونا ہوتا ہے، یعنی باکس آفس پر ہٹ ہو کر بہت سارے پیسے کمانا مقصود ہوں۔
اسی رویے نے ہندوستانی فلمی صنعت میں سو اور دو سو کروڑ جیسے کلب پیدا کیے۔ دوسری قسم کی فلموں میں کہانی سے لے کر ہدایت کاری، اداکاری، موسیقی تک ہرطرح کی باریکیوں کا خیال رکھا جاتا ہے، مگر ان کو اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ معاشی اورتخلیقی طور پر کیسے اور کتنے کامیاب ہوسکیں گے۔
ہندوستانی سینما میں ان دونوں طرح کی رومانوی فلموں کے درمیان ایک تیسری قسم بہت تیزی سے ابھری ہے، جن کی خواہش پیسے کمانے کی ہوتی ہے، مگر وہ تخلیقی طور پر بھی کامیاب ہونا چاہتے ہیں، مگر بدقسمتی سے یہ دونوں اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ زیرِ نظر فلم صنم تیری قسم کا تعلق اسی تیسری طرح کی فلموں سے ہے۔
مزید پڑھیں: ماورا کی بولی وڈ فلم کا گانا ریلیز
ہندوستان کی معروف ہدایت کار جوڑی رادھیکا راؤ اور وینے سپرو کا تعلق میوزک ویڈیوز سے ہے، جس میں معروف ہندوستانی گلوکارشامل ہیں، جبکہ کئی ایک فلموں کے گیتوں کو بھی اس ہدایت کار جوڑی نے بخوبی عکس بند کیا، جن کو معاشی لحاظ سے کامیابی بھی حاصل ہوئی۔
بطور ہدایت کار یہ ان کی تیسری فلم ہے۔ اس سے پہلے یہ سلمان خان کی فلم 'لکی' اور سنی دیول کی 'آئی لو نیو ایئر' کی ہدایات بھی دے چکے ہیں۔ اتفاق سے یہ فلمیں بھی باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکیں، البتہ ان کی موسیقی کو پسند کیاگیا۔
بولی وڈ کی یہ ری میک فلم 'صنم تیری قسم' اپنے نام کی طرح کوئی نیا موضوع نہیں۔ 1982 میں کمل ہاسن اور رینا رائے اور 2000 میں سیف علی خان اور پوجا بھٹ نے اسی نام کی فلم میں کام کیا۔ موجودہ فلم 'صنم تیری قسم' 5 فروری 2016 کو ہندوستان اور پاکستان میں ایک ساتھ ریلیز ہوئی۔ ابتدائی تین دنوں میں اس فلم کی باکس آفس رپورٹ کے مطابق یہ بہت اچھا بزنس نہیں کرسکی، کسی فلم کے مرکزی کرداروں میں اگرکوئی پاکستانی فنکار بھی شامل ہو تو فلم کی مارکیٹ اور بڑی ہوجاتی ہے، اور دونوں ممالک کے فلم بینوں کے علاوہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی زیادہ توجہ ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ماورا کی فلم 'صنم تیری قسم' کی پہلی جھلک
فلم کا اسکرپٹ کمزور، روایتی بلکہ بہت گھسا پٹا ہے۔ ایسی فلم کا ری میک بنانا ایک خطرہ مول لینے والی بات تھی، مگر اس ہدایت کار جوڑی نے کوشش کی کہ اسکرین کی جوڑی کو کہانی کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب لایا جائے، مگر ناکام رہے۔ بولی وڈ کی روایتی فارمولا فلموں کی طرح اس فلم میں بھی تمام مصالحے شامل کیے گئے ہیں، مگر اس کے باوجود فلم میں دو مرکزی کرداروں کے چہروں کے کوئی چیز بھی نئی نہیں ہے۔
فلم میں سخت گیر مذہبی رجحان رکھنے والے باپ، اس کی دو بیٹیاں، ایک فیشن کی دلدادہ اور باتونی، دوسری سادہ اور بیوقوف، اس کہانی کا یہ پہلا تضاد ہے۔ باپ کی ضد اور بیٹیوں کا تضاد کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔ ہیرو ایک امیر گھر کا بیٹا اپنے باپ سے جھگڑا کر کے متوسط طبقے کے علاقے میں رہائش پذیر ہوتا ہے اور آزادانہ بے راہ روی کی زندگی بسر کرتا ہے۔
اس کو کوئی روک ٹوک نہیں سکتا اور جیسے ہی وہ اپنی پڑوسن اور اس مذہبی رجحان کے شخص کی بیوقوف بیٹی سے جذباتی طور پر وابستہ ہوتا ہے، تو محلے والے اس کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ فلم میں یہ دوسرا تضاد ہے۔
اوباش لڑکے کا بیوقوف لڑکی پر فدا ہونا، اس بیوقوف لڑکی کا پہلے کند ذہن ہونا، پھر اچانک بہت چالاک ہوجانا، اس کا اچانک بیمار ہو کر موت واقع ہوجانا، لڑکے کی زندگی میں پراسرار طریقے سے اس لڑکی کے آنے اور اس کی موت کی پیشن گوئی ہونا، یہ پوری فلم ایسے تضادات اور بے معنی جوڑ توڑ سے بھری پڑی ہے۔ ابتدائی طور پر کہانی دلچسپ انداز سے فلمائی گئی، لیکن جیسے جیسے فلم آگے بڑھتی جاتی ہے، کردارایک دوسرے سے الجھتے چلے جاتے ہیں۔ صنم تیری قسم ایک ایسی فلم ثابت ہوئی، جس میں نہ صنم کی سمجھ آئی، نہ کسی قسم کا حوالہ نظر آیا۔
اس فلم کی ہدایت کار جوڑی کا پس منظر چونکہ میوزک ویڈیوز کا ہے اور کئی فلموں کے گیتوں کی ویڈیوز بھی ان کے کریڈیٹ پر ہیں، اس لیے اس فلم کے میوزک ویڈیوز کی حد تک یہ اپنی صلاحیتیں ثابت کرنے میں کامیاب رہے، یہی وجہ ہے کہ فلم بینوں کی توقعات اس فلم سے بہت زیادہ تھیں، جن پر ریلیز کے بعد زد پڑی۔
فلم کا میوزک ایوریج ہے۔ ہمیش ریشمیا اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر ہیں اور ہندوستانی سینما میں جس طرح کے گیتوں کا چلن ہے، میوزک ڈائریکٹر نے وہی کچھ بنایا ہے۔ گیتوں کی شاعری بھی بے معنی ہے، گلوکاروں نے اپنے تئیں دھنوں کو نبھایا ہے، البتہ فلم کی ایڈیٹنگ کافی معیاری ہے۔
فلم کے ہیرو اور ہیروئن دونوں کی بولی وڈ میں یہ پہلی فلم ہے۔ اس فلم کے ہیرو ہرشیوردھان رینے کا تیلگو فلموں کا پس منظر ہے اور انہوں نے قدرے بہتر اداکاری کی ہے، البتہ ماورا حسین اداکاری کرتے ہوئے پاکستانی ڈرامے کے اثرسے باہر نہیں نکل پائیں۔ ان ڈراموں کا رونا دھونا دیکھ کر ہی شاید انہیں اس کردار کی پیشکش کی گئی ہوگی، لہٰذا رونے کی حد تک بہت متاثرکن اداکاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ماورا کی فلم کا پہلا ٹریلر ’رونے کا مقابلہ‘؟
فلم کے دیگر اداکاروں میں منیش چوہدری اور مرلی شرما نے اپنے فلمی پس منظر اور تجربے کی بنا پر اچھی اداکاری کی۔ وجے راز جیسے باکمال اداکار کو اس فلم میں ضائع کیا گیا۔ ٹین ایجر فلم بینوں کو شاید یہ فلم پسند آئے، مگر سنجیدہ فلم بینوں کے لیے اس میں کچھ نہیں ہے۔
اس فلم کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ میرا، وینا اور حمیمہ کی طرح ماورا بھی بولی وڈ میں کوئی بہت بڑا اپ سیٹ نہیں کر پائیں، جس کی بنیادی وجہ اچھی کہانی کا نا ہونا ہے۔
فلم کے کئی مناظر میں ماورا بھی حسب روایت دیگر پاکستانی اداکاراؤں کی طرح بولڈ سین کرتی نظر آئیں، مگر وہ محنت بھی کسی کام نہیں آئی۔ گلیمر ایک حد تک ساتھ دے سکتا ہے، مگر کہانی اور مکالمے میں جان ہونا ضروری ہے، وگرنہ ایسے ہی نتائج سامنے آتے ہیں، جو اس فلم کے آئے ہیں۔ نہ جانے کیوں فلم کا انتخاب کرتے ہوئے ہماری یہ اداکارائیں اسکرپٹ کے بجائے صرف یہ کیوں دیکھتی ہیں کہ یہ بولی وڈ کی فلم ہے۔
اس فلم کی وجہ سے شاید ماورا حسین کو بالی ووڈ میں کچھ مزید کام مل جائے، مگر انہوں نے فلموں کے انتخاب میں احتیاط نہ برتی تو انجام دیگر پاکستانی اداکاراؤں سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ اس فلم کو دیکھنے کے لیے زیادہ توقعات لگانا سنجیدہ فلم بینوں کے لیے نقصان دہ ہوگا، اس لیے وہ بالخصوص ہوشیار رہیں۔
..