سرکاری سکولوں کی تعلیم کا طرز عمل

Posted on at


پاکستان کو خدا نے ہر چیز سے نوازا ہے۔ لیکن یہاں کے لوگ خد اپنی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ایسی بات نہیں کے یہاں کے بچھے گند زہین۔ بلکہ بات تو یہ ہے انھیں معیاری تعلیم اور موقع میسر نہیں ہوتا۔جس میں رہ کر وہ تعلیم حاصل کریں۔


میں خد سرکاری سکولوں میں پڑھ کر آیا ہوں اور جس مشکل اور ازبت میں وہاں میں نے پڑھا ہے۔وہ صرف اور صرف مھجے پتا ہے۔ہوتا اسطرح ہے کہ وہاں کام کم اور باتیں زیادہ ہوتی ہے۔صبح سکول پحنچھنے پر دیکھتا تع تالا۔ لڑکے باہر دروازے کے سامنے جیسے بے آسرا ہوتے ہیں


۔کافی دیر بعد چوکیدار بھاگتا ہوا آتا ہے۔اور دروازہ کھولتا ہے۔لڑکے اندر ایسے بھاگتے ہیں جیسے ولیمے کے کھانے پر مہمان۔خیر لڑکوں کا کھیل کو داندر شروع ہوجاتا ہے۔اور دو یا چار لڑکے اپنی ڈیوٹی کے مطابق اپنے کمروں کو صاف کوتے ہیں۔اساتزہ کا یبھی تک نام ونشان نہیں ہوتا۔


صبح کی اسمبلی زیادہ تر چوکیدار ہی کرواتا ہے۔اسمبلی جب ختم ہو تو تمام لڑکے ترتیب میں اپنی اپنی کلاس میں جاتے ہیں اور وہاںﺍ پر اندر گپ شپ شروع ہوجاتی ہیں۔فرض کریں اگر سکول لی اسمبلی ۹ بجے ختم ہوتی ہے تو اساتزہ کلاس میں ١۰ سے پہلے نہیں آتے۔سرکاری سکولوں میں ٹاہم ٹیبل نہیں ہوتا کہ کب کیا پڑھنا ہے۔استاد آےٴ ۔جو پڑھانے کو جی چاہا لڑکوں کو کہتے کے اس مضمون کی کتابیں نکال لو،پہلے دس ایک صاحب منٹ ادھر آدھر کی گپ شپ ہوتی ۔پھر اٹھتے بلیک بورڈ  کی طرف اور کام شروع کرتے۔کام بھی کیا کرنا ہوتا تھا انگلش کی درست ٹراسلیشن انہیں نہیں آتی ۔بچھوں کے ساتھ پیش آنے کا سلیکا۔ان کے ساتھ شفقت   کرنا ایسی چیز ان میں نہیں ہوتی البتہ بہت ہی کم ایسے یوتے ہیں جو اس خصٕوصیات کے مالک ہو اور جن کی وجہ  سے یہ ادارے چل رہیں ہیں۔


    تو تھوڑے سے پڑھنے کے بعد استاد صاحب کا مہمان آجاتا ہے۔یا دوسرے استاد صاحب انکو باہر بولا لیتے ہیں۔اور لڑکو کا اپنا ہنسی مزاق شروع ہوجاتا ہیں انھیں اپنے نفح یا نقصان کے بارے میں پتہ ہی ہوتا۔ اسی طرح دن کا کافی حاصہ گزر جاتا ہے۔ اور اسکے ساتھ ہی آدھی چھٹی  ہو جاتی ہے۔اسکے بعد لڑکے بھی کافی ٹھک جاتے ہیں اور سہ باتیں کر کے یا کچھ کھیل کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ اور تب جاکر کہیں ۲ بجے چٹھی ہوتی ہے۔اور اس وقت لڑکوں کو روک دیا جاتا ہے اور انسے پہاڑے پڑھواےٴ جاتے ہیں تب کہیں جاکر چھٹی ہوتی ہیں۔


اور اس قوم کے جوان تھکے ہارے،اجڑے بال،میلے کپڑے۔پاوٴں میں چپل اپنے اپنے گھروں کی جانب خراماں خراماں چل نکلتے ہیں۔



About the author

160