فتح مکّہ حصّہ ١

Posted on at


 

قرآن پاک کی سوره بنی اسرائیل کی ٨١ آیت کے ترجمے کا مفہوم ہے کہ

حق آ گیا ، اور باطل گزر گیا

بیشک باطل گزرنے والا ہی ہے

 

اس آیت سے مراد فتح مکّہ ہے جس کو فتح مبین بھی کہا جاتا ہے . یہ ٨ ہجری کا سال تھا اور مہینہ رمضان المبارک کا تھا . بدر کی جنگ سے پورے چھ سال بعد اور صلح حدیبیہ سے قریباً ڈیڑھ سال بعد حضور اکرم صل الله علیہ وسلم کو مکّے کا قصد کرنا پڑا

 

قصد کی وجہ یہ تھی کہ معاہدہ صلح حدیبیہ کی ایک شرط یہ تھی کہ جو قبیلہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہے مل جاۓ ، دوسرے فریق کو اس سے کوئی اعتراض نہ ھو گا اور نہ ہی وہ الجھے گا . اس لئے قبیلہ بنو خزاعہ ، حضور اکرم صل الله علیہ وسلم کے ساتھ حلیف بن گیا اور قبیلہ بنو بکر نے قریش مکّہ کے ساتھ معاہدہ کر لیا

 

 

ان دونوں قبیلوں کی آپس میں دشمنی تھی . صلح حدیبیہ کے بعد بنو بکر نے بنو  خزاعہ پر اچانک حملہ کر دیا اور قریش نے ان کی اعلانیہ مدد کی . مجبور ھو کر بنو خزاعہ نے حرم شریف میں پناہ لی مگر ان ظالموں نے حرم کے تقدس کو بھی پامال کیا اور وہیں پر ان کا خون بہا دیا

 

حضور کریم صل الله علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ شدید رنج و غم میں مبتلا ھو گئے . آپ صل الله علیہ وسلم نے قریش کے پاس ایک قاصد کو روانہ کیا اور فیصلے کے لئے ان کو ٣ صورتیں پیش  کی کہ ان میں سے وہ جس کو پسند کریں ، قبول کر لیں

شرطیں درج ذیل ہیں

مظلوموں کے جانی  و مالی نقصان کی تلافی کی جاۓ

قریش بنو بکر کی حمایت سے دستبدار ہو جایئں

صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا جاۓ

 

بلاگ رائیٹر

نبیل حسن  



About the author

RoshanSitara

Its my hobby

Subscribe 0
160