کعبہ شریف

Posted on at


 کعبہ شریف 


 



جیسا کہ میں اور آپ جانتے ہیں بلکہ  یہودی اور عیسائی بھی یہ بات جانتے ھیں کہ کعبے کو حضرت ابراھیم ( علیہ سلام ) نے تعمیر فرمایا تھا ، اور بیت المقدس اس کے تقریبا تیرہ سو سال بعد حضرت سلیمان ( علیہ سلام ) کے ہاتھوں تعمیر ھوا اور انہی کے زمانے میں یہ قبلہ قرار پایا تھا . اس سے پہلے مکّہ معظمہ یعنی قبلہ اول کی طرف ہی رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم تھا الله تعالیٰ کی طرف سے . حضور کریم ( صل الله علیہ وسلم ) کی بعثت سے قبل مشرکین مکّہ نے کعبے میں بہت سے بت رکھ دیے تھے اور اسے مشرکانہ رسموں کا مرکز بنا دیا تھا . اس ابتداۓ اسلام میں بھی حضور ( صل الله علیہ وسلم ) بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے مگر آپ ( صل الله علیہ وسلم ) کی دل کی خواہش یہی تھی کہ ان کے جد امجد کا تعمیر کردہ کعبہ ہی ان کا  قبلہ قرار پاۓ


 


آپ ( صل الله علیہ وسلم ) کی اس خواہش کے احترام میں الله سبحانہ وتعالیٰ نے کعبہ اول کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم عین نماز کی حالت میں نازل فرمایا . اس نبی پاک ( صل الله علیہ وسلم ) مدینہ کے باہر ایک مسجد میں امامت فرما رھے تھے . چنانچہ الله تعالیٰ کے اس حکم کو تسلیم کر کے آپ ( صل الله علیہ وسلم ) نے نماز کی حالت میں ہی اپنا رخ مکّہ معظمہ کی طرف کر لیا . نبی اکرم ( صل الله علیہ وسلم ) کے پیچھے جتنے بھی مقتدی نماز کی حالت میں تھے ، اسی طرف پھر گئے . اس مسجد کا نام مسجد قبلتین پڑ گیا اور زائرین وہاں بڑی عقیدت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں . تحویل کعبہ دراصل حضرت محمّد مصطفیٰ ( صل الله علیہ وسلم ) کی امامت کا اعلان ہے اور بنی اسرائیل کی گمراہی کے باعث اس منصب سے معزولی کا فیصلہ تھا. الله رب العالمین کی طرف سے اس طرح بھی آپ (صل الله علیہ وسلم ) کو بہت فضیلت دی گئی


 


یہودیوں کو رسول کریم ( صل الله علیہ وسلم ) پر یہ اعتراض تھا کہ بیت المقدس کو چھوڑ کر کعبہ کو کیوں قبلہ کا درجہ دیا گیا . گو حضرت سلیمان ( علیہ سلام ) کے بعد انبیاء کرام کا قبلہ بیت المقدس ہی تھا لیکن کعبہ ابراھیم کی اولیت کے پیش نظر کعبے کے قبلہ بناۓ جانے پر اعتراض کی گنجائش نہیں اور اس الله تعالیٰ کے گھر میں واضح علامات پائی ہیں جن سے ثابت ھوتا ہے کہ یہ گھر الله رب العزت نے اپنے گھر کی حیثیت سے پسند فرمایا ہے . بیابان جگہ میں بنایا گیا . جلیل القدر پیغمبروں ( حضرت ابراھیم علیہ سلام اور اسماعیل علیہ سلام ) کے ہاتھوں یہ خانہ کعبہ تعمیر ھوا اور پھر الله تعالیٰ نے اس کے نواح میں بسنے والوں کو پھلوں اور رزق کی برکت اور کثرت سے فراوانی عطا فرمائی . مسلسل ڈھائی ھزار سال تک جاہلیت کے سبب ملک عرب میں انتہائی بدامنی کی صورتحال رھی لیکن ان سب کے باوجود خانہ کعبہ کا خطہ ایسا تھا جو امن و امان سے بھرپور تھا


 


سال بھر میں چار مہینے ایسے تھے جن میں پورے ملک میں جنگ و جدال حرام تھا . یہ بھی سب کو معلوم تھا کہ جب ابرہہ نے کعبے کو ڈھانے کے لئے مکّے پر حملہ کیا تھا تو اس کی فوج کے ساتھ الله تعالیٰ نے  ابابیلوں کے ذریعے سے کتنا عبرتناک حشر کیا تھا . ان سب حقائق کی بنا پر قبلہ اول کی فضیلت سے انکار ہی نہیں کیا جا سکتا . گویا اس سے ثابت ھوتا ہے کہ یہودیوں کا اعتراض محض تعصب ، بغض اور تنگ نظری کے علاوہ اور کچھ نہیں


 


عرب میں کعبے کی حیثیت صرف ایک عبادت گاہ ہی کی نہیں تھی ، بلکہ یہ اپنی مرکزیت اور تقدس کی وجہ سے پورے ملک کی معاشی اور تمدنی زندگی کا سہارا بنا ھوا تھا . حج اور عمرے کے لئے پوری دنیا کے مسلمان ادھر کھینچے چلے آتے ہیں . وحدت ملی کو فروغ حاصل ھوتا تھا ، تجارت کو بہت ترقی ملتی تھی  اور اس کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات میں بھی خوشگواری پیدا ھوتی تھی . اس بنا پر بھی قبلہ اول کی فضیلت واضح اور مسلم تھی . اسے مسجد حرام بھی کہا جاتا ہے کیونکہ الله تعالیٰ کے اس گھر میں بہت سی چیزیں حرام ہیں یعنی منع کی گئی ہیں . مثلا آدمی کو مارنا ، جانوروں کو ستانا ، گھاس اکھاڑنا اور پڑا مال اٹھانا . کافر لوگ مسلمانوں کو کعبے میں جانے سے روکتے تھے . اس میں بت بھی سجا کے رکھتے تھے . جن کی تعداد ٣٦٠ کے قریب تھی . خود ان کافروں کی نماز کعبہ کے نزدیک سیٹیاں اور تالیاں بجانا تھیں


 


 رسول کریم ( صل الله علیہ وسلم ) نے فتح مکّہ کے وقت بتوں کو توڑ کر کعبہ کو اس غلاظت سے پاک کیا . خانہ کعبہ بلاشبہ قیامت تک تمام عالم اسلام کے لئے نکتہ وحدت اور مرکزی حیثیت کا حامل رھے گا


 


میرے مزید بلاگز پڑھنے کے لئے میرے لنک کا وزٹ کیجئے


http://www.filmannex.com/NabeelHasan/blog_post


الله حافظ


 


بلاگ رائیٹر


نبیل حسن  



About the author

RoshanSitara

Its my hobby

Subscribe 0
160