(معراج مصطفیٰ ( صل الله علیہ وسلم

Posted on at


(معراج مصطفیٰ ( صل الله علیہ وسلم




آج میرا بلاگ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم ( صل الله علیہ وسلم ) کے معراج کے سفر کے واقعہ کو تفصیلی اور آسان لفظوں میں بیاں کر سکوں. امید کرتا ھوں کہ آپ کو ضرور پسند آئے گا


 


ہجرت سے پہلے رجب کی ستائیسویں شب حضور کریم ( صل الله علیہ وسلم ) کعبہ عظیم میں آرام فرما رھے تھے کہ جبرائیل امین حاضر خدمت ہوۓ . سلام عرض کر کے الله رب العالمین کا پیغام ملاقات پہنچایا . آپ ( صل الله علیہ وسلم ) نے اٹھ کر وضو فرمایا اور ان کے ساتھ چل پڑے . جبرائیل (علیہ سلام ) نے براق نامی سواری پیش کی جو کہ بہت تیز تھی اور وہ خاص سرکار دوعالم ( صل الله علیہ وسلم ) کے لئے آسمانوں سے لائی گئی تھی


 


چنانچہ آپ ( صل اللہ علیہ وسلم ) اس پر سوار ھو گئے اور شب اسری کا سفر شروع ھوا . پہلے مرحلے میں آپ ( صل الله علیہ وسلم ) مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس ) پہنچے . وہاں تمام انبیاء کرام صفیں بندھے آپ ( صل الله علیہ وسلم ) کے منتظر تھے .حضرت جبرائیل ( علیہ سلام ) نے محمّد مصطفیٰ ( صل الله اعلیہ وسلم ) کا بازو مبارک تھاما اور آپ کو مصلّی امامت پر کھڑا کر دیا ، اس طرح تمام انبیاء کرام نے آپ کے اقتدار میں نماز ادا کی . اس طرح الله رب العزت کی ذات نے عالم ارواح میں کئے گئے وعدے کو پورا کر دکھایا


 


اقصیٰ تک سفر کا پہلا مرحلہ تھا . اس کے بعد دوسرے مرحلے سے معراج کے سفر کا آغاز ھوا . یہ فضا کی وسعتوں اور آسمان کی بلندیوں کا سفر تھا اور آسمانوں پر بعض انبیاء کرام سے آپ ( صل الله علیہ وسلم ) کی ملاقات بھی ھوئی . ہر ایک نے آپ کو خوش آمدید کہا . آپ ( صل اللہ علیہ وسلم ) قدرت کے نظروں کا لطف اٹھاتے ہوۓ ایک مقام پر پہنچے جہاں سواری رک گئی اور آگے نہ بڑھی


 


پوچھنے پر جبرائیل ( علیہ سلام ) نے بتایا کہ اس مقام کا نام سدرہ المنتہی ہے اور سلسلہ کائنات اور کون و مکاں کی یہ آخری حد ہے . اس سے آگے کوئی ذی روح نہیں جا سکتی ، یعنی ایک بال برابر بھی آگے بڑھوں تو تجلیات الہی کی فراوانی سے میرے پر جل جایئں گے . چنانچہ محبوب خدا ( صل الله علیہ وسلم ) اکیلے آگے بڑھے اور بڑھتے چلے گئے . عشق اور محبت میں ڈوبی ھوئی آواز سنائی دی


اے حبیب ، میرے قریب آ


 


یہ صدا بلند ھوتی رہی اور لامکاں کے سیاح حضور اکرم ( صل الله علیہ وسلم ) کا سفر جاری رہا . سدرہ المنتہی سے آگے سفر کا یہ تیسرا مرحلہ تھا . وہاں نہ کوئی زمانہ تھا ، نہ کوئی سمت تھی . فلسفہ و سائنس اور عقل و شعور اس گھتی کو سلجھانے سے قاصر ہے. ہجر و فراق کے  کے فاصلے مٹتے گئے اور یہاں تک کہ اتنے قریب ھو گئے جتنے کمان کے دو کنارے یا اس سے بھی قریب . پھر آپ ( صل الله علیہ وسلم ) کو نور الہی کا دیدار ھوا . نور سے نور ملا . الله رب العالمین نے اپنے حبیب سے جو کہنا تھا ، کہا


 


قربان جایئں کہ آپ ( صل الله علیہ وسلم ) اس مرحلہ میں بھی اپنی امت کو نہیں بھولے . الله تعالیٰ نے نماز کا تحفہ عطا کیا . پچاس نمازیں عطا کر کے پانچ کر دی گئیں مگر ثواب پچاس کے برابر ہی رہنے دیا . پھر آپ ( صل الله علیہ وسلم ) واپس تشریف لے آئے . معراج کا واقعہ بیان فرمایا . عقل دلیلوں میں گم رہی مگر عشق کا پتلا ابو بکر صدیق ( رضی الله عنہ ) بازی لے گئے . فورا تصدیق کر کے صدیق کا لقب پایا


 


کافروں نے آپ ( صل اللہ علیہ وسلم ) کو جھٹلایا اور بیت المقدس کی عمارت کے بارے میں کافی سوالات کئے . الله تعالیٰ نے اس عمارت کو آپ ( صل اللہ علیہ وسلم ) کے روبرو لا کر کھڑا کر دیا اور آپ دیکھ کر ان کے سوالوں کے جوابات دیتے رھے


 


شب معراج کے تحفہ نماز کو حضور اکرم ( صل اللہ علیہ وسلم ) نے معراج المومنین قرار دیا ہے کیوں کہ اس دوران مومن اپنے رب سے بہت قریب ھوتا ہے اور خالق سے ہمکلامی کا شرف بھی حاصل ھوتا ہے


 


بعض کا خیال ہے کہ یہ جسمانی معراج نہیں بلکہ نیند کی حالت میں ھوئی تھی مگر یہ خیال درست نہیں کیونکہ انداز بیاں سے صاف ظاہر ھوتا ہے کہ قرآن مجید کسی نادر ، منفرد اور محیر العقول واقعہ کا ذکر کر رہا ہے جبکہ نیند کی حالت میں ایسا خواب عام لوگ بھی دیکھ سکتے ہیں


 


امید کرتا ھوں کہ آپ کو میرا بلاگ پسند آیا ھو گا . پڑھ کر شیئر ضرور کر دیجئے گا


مزید بلاگ کے لئے میرے لنک کا وزٹ کیجئے


http://www.filmannex.com/NabeelHasan/blog_post


 


بلاگ رائیٹر


نبیل حسن  


 



About the author

RoshanSitara

Its my hobby

Subscribe 0
160