(پینے کا صاف پانی۔۔۔۔۔۔۔ایک نایاب شۓ (حصہ اول

Posted on at


 


۲۶ جون ۲۰۰۳ء کو مسلم آباد لانڈھی ٹاؤن میں ۷ بچے اور ۲ خواتین گندہ پانی پینے سے محروم ہو گئے تھے۔ اسی سال جولائی میں گڈاپ میں بھی ۵ افراد گندہ پانی پینے سے ہلاک ہو گئے۔ مسلم آباد میں ہلاک شدگان کے علاوہ تقریباً ۶ ہزار افراد اس پانی سے شدید طور پر متاثر ہوئے  اور انہیں طبی امداد کی ضرورت پڑی۔ گڈاپ میں ۵۲۵ افراد کو ہنگامی طبی امداد دی گئی۔ پورے شہر میں تہلکہ مچ گیا، اخبارات نے جلی حروف میں ان واقعات کی خبریں لگائیں۔


 


کیا ان واقعات کے بعد پانی کی فراہمی کے نظام میں کوئی تبدیلی آئی ہے اور کیا مستقبل میں اس قسم کے واقعات کے سد باب کا کوئی انتظام کیا گیا ہے؟؟


مسلم آباد اور گڈاپ کے واقعات کے فوراً بعد ان علاقوں کا دورہ کرنے والے ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اموات گندہ اور زہریلا پانی پینےکے سبب ہوئی ہیں۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، شہری حکومت، ای پی اے یا ای کیو ایس کسی نے اس حادثہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی، سرکار کی جانب سے کوئی تحقیقاتی کمیشن قائم نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی عدالت نے پوچھا کہ ’’قاتل کون ہے۔‘‘ واحد انسدادی اقدام یہ کیا گیا کہ مسلم آباد کی پانی کی لائن منقطع کر دی گئی اور بذریعہ ٹینکر پانی کی فراہمی شروع کر دی گئی۔


 


ان واقعات کے سوک سینٹر میں واقع شہری حکومت کے دفتر میں ناظم شہر نعمت اللہ خان کی موجودگی میں ایک اجلاس ہوا۔ اس میں واٹر بورڈ کے ایکٹنگ مینیجر ڈائریکٹر سلمان چانڈیو اور ای ڈی اور ریٹائر بریگیڈیئر قادری کے درمیان دھینگامشتی کے نتیجے میں چانڈیو صاحب کی ناک کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا۔


 


واٹر بورڈ کے چیف اینجینئر اے ایم چندوانی نے صحافیوں کے سامنے دعوٰی کیا کہ مسلم آباد اور گڈاپ میں ہونے والی اموات زہر خورانی کے سبب ہوئیں جبکہ اخبار ڈیلی ٹائمز میں ان واقعات سے کئی ماہ قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے صوبائی پلاننگ اور ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کو ایک مراسلہ لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے زیادہ تر باشندے زہر آلود پانی پینے پر مجبور ہیں کیونکہ بغیر ٹریٹ کیا ہوا صنعتوں کا استعمال شدہ پانی کلری بگھار نہر میں خارج کیا جاتا ہے، جہاں سے کراچی کو پینے کا پانی مہیا کیا جاتا ہے۔




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160