بچوں پر بے جا سختی اور روک ٹوک کے ان پر اثرات

Posted on at


بچوں پر بے جا سختی اور روک ٹوک کے ان پر اثرات


کسی باغ میں موجودوہ پھول ہوتے ہیں۔ یا میں کہہ سکتا ہوں کہ ان پھولوں کی طرح ہوتے ہیں۔ جنہیں ابھی کھلنا ہوتا ہے۔ اگر وہ زیادہ گرمی میں رہیں گے یعنی کہ زیادہ تیزدھوپ یاپھر بہت زیادہ سردی ہونے کی وجہ سے بھی وہ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتے ہیں۔یعنی کہ دونوں طرح کے موسموں کی حد سے زیادہ تیزی ہی ان پھولوں پر اچھا اثر نہیں ڈالتی۔ اسی طرح ان پھولوں کی طرح مثال ہوتی ہے۔


ان بچوں کو جو کہ ابھی چھوٹے ہوتے ہیں۔ ابھی شاخ پر ہوتے ہیں اور انہیں کھلنا ہوتا ہے۔ اور پھر انہیں ان موسموں سے بچانا بھی ہوتا ہے۔ والدین کا فرض ہوتا ہے کہ اسے یعنی اپنے بچوں کو اس قابل بنائے کہ وہ آنے والے ہر موسم کا اچھی طرح سے مقابلہ کرسکے۔کسی بھی بچے کے لیے اس کی پہلی درس گاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے۔


بچے نے جو بھی سکھینا ہوتا ہے وہیں سے سیکھ کر پروان چڑھتا ہے۔ اس لیے ماں کا رویہ بچوں کے ساتھ اس طرح کا ہونا چاہیئے کہ ان پر بے جا سختی اور روک ٹوک نہ کی جائے۔ کیونکہ اس طرح کرنے سے وہ بچے کمتری کا احساس محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے بچوں کے ساتھ مناسب رویہ اختیار رکھنا چاہیے۔ نہ توان کے ساتھ بے جا سختی کی جائے اور نہ ہی ان کے ساتھ بالکل نرمی والا رویہ اختیار کیا جائے۔


کیونکہ بالکل نرمی بھی انہیں خراب کر دے گی۔ اور بہت زیادہ سختی بھی ان پر کچھ اچھے اثرات نہیں ڈالے گی۔انہیں کچھ نہ کچھ خود مختاری کا احساس ڈالنا چاہیے۔ تا کہ وہ اپنی مرضی سے بھی کوئی نہ کوئی کام کر سکیں۔ یا پھر کھیل کود کر سکیں۔ کیونکہ انہیں ہر بات سے روکا جائے گا ان پر سختی کی جائے گی تو پھر وہ اکیلے رہ جائیں گے۔ اور وہ پھیلنے پھولنے سے پہلے ہی مرجھا جائیں گے۔


 


 



About the author

160