بالاچ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچ تشخص کی علامت

Posted on at


بالاچ گو کثیر، اٹھارویں صدی کا ایک عظیم بلوچ کردار، بلوچ تاریخ میں اس قدر ناموری اور شہرت کا حامل ہے کہ معنویت کی ہمہ گیری کے اعتبار سے وہ ایک انفرادی وجود کی بجائے ایک بلوچ کے مکمل تشخص کی بھرپور علامت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اسے گویا بلوچوں کی قومی پہچان کا ایک نمائندہ ترین مظہر قرار دیا جا سکتا ہے۔ بالاچ بلوچوں کے گور کثیر قبیلے سے تعلق رکھتا تھا جو اس وقت موجودہ بگٹی علاقے کے سیاہ آف وادی میں بودو باش رکھتی تھی۔ ان دنوں مذکورہ علاقہ پر بلیدی قبیلے کا غلبہ تھا جس کا سردار بیورغ تھا۔ میر شیرو مری اپنی کتاب ‘‘بلوچی کہنیں شاحری’’ میں اس کا تعلق دودائی فرقے سے بتاتا ہے۔ گور کثیر اسی علاقے کے ساتھ رہتے تھے جبکہ ان کی تعداد وقوت بہت کم تھی۔


 


سمی نام کی ایک خاتون بیورغ کے علاقے میں رہتی تھی، وہ ایک  مالدار خاتون تھی یعنی اس کے پاس کافی مال مویشی تھے۔ اس کے ہاں کوئی اولادِ نرینہ پیدا نہ ہوئی، اس کے خاوند کی وفات کے بعد اس کی جائیداد پر اس کے ورثاء قبضہ کرنے کے درپے ہو گئے۔ اس خطرے کے پیش نظر سمی نے بیورغ کا علاقہ چھوڑ دیا اور میر دودا گور کثیر کے پاس آ گئی۔ دودا نے اسے اپنے ہاں پناہ دے دی، گویا اب سمی دودا کی باہوٹ تھی اور یہیں سے بلوچ کی تاریخی کردار کی کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ دودا نہ ہوتا تو بالاچ کا وہ کردار تخلیق نہ ہوتا جو بلوچیت کی علامت بن گیا۔


 


بیورغ نے سمی کے دودا کی باہوٹی میں چلے جانے کو اپنی توہین سمجھا۔ اس کی خواہش تھی کہ سمی کے مال مویشی اس کے شوہر کے ورثاء کو ملیں۔ بیورغ کی رضامندی کے ساتھ اس کے مرہوم شوہر کے چند ورثاء دن دیہاڑے سمی کے گھر آئے اور اس کے کچھ مال مویشی ہانک کر لے گئے۔ سمی کے مال مویشی کے رکھوالے فوراً دودا کے گھر یہ حال بتانے پہنچ گئے۔ دودا کی کچھ ہی دن قبل شادی ہوئی تھی اور وہ اس وقت چھونپڑی میں اپنی دلہن کے ساتھ سویا ہوا تھا۔ اس کی ماں نے اسی وقت اسے جگایا اور اس سے یوں مخاطب ہوئی۔


 


بیٹا جو جواں مرد کسی کو پناء دیتے ہیں وہ اس طرح دن کے وقت نیند کی مدحوشی میں نہیں کھو جاتے۔ میں نے تجھے پورے نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھا، پھر تجھے تین سال تک اپنا دودھ پلاتی رہی۔ اٹھ یا تو سمی کے مال مویشی واپس لا، یا پھر اپنا سر گنوادے ورنہ میں تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی۔ دودا خود بھی باہوٹی کے مفہوم اور تقاضوں سے بخوبی آگاہ تھا۔ یہ باتیں گویا اس کے لیے طعنہ اور تازیانہ ثابت ہوئیں۔ وہ اسی وقت اٹھا اور گھوڑے پر سوار ہو کر ان کا تعاقب میں روانہ ہوا تاکہ سمی کا مال ان سے چھین کر واپس لائے۔ اس نے راستے میں ہی مال مویشی ہانک کے لے جانے والوں کو پکڑ لیا۔ ایک طرف دودا اکیلا تھا جبکہ دوسری جانب بہت سے افراد تھے۔ بالآخر اس نے باہوٹی کا فرض نبھاتے ہوئے اپنی جاں نذر کر دی اور اپنی عظیم ماں کے دودھ کو اپنا لہو پیش کر کے اس کے سامنے سرخرو ہوا۔


 



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160