(ارسطو کا تصور المیه" (پارٹ ١"

Posted on at


خیالی تصویر 


دنیا ایک قرطاس ہے جس پر ہزاروں کردار نمودار ہوئے اور اپنی صلاحیتوں کےرنگ بکھیر کر چلے گئے _لیکن کچھ رنگ اتنے خوبصورت اور گہرے تھے کہ ان کو ہر دور میں اشتیاق سے دیکھا اور سراہا گیا_انہیں  میں ایک نام ارسطو کا بھی ہے_


"ارسطو" کا تعلق "یونان " سے تھا اور اس کا والد طبیب تھا جب کے ارسطو خود ایک سائنسدان تھا لیکن اس کو آفاقی شہرت سے ہمکنار کرنے والی صرف اس کی سائنسی افکار نہ تھیں بلکہ نظریات تھے جو اس نے تنقید کے سپرد کئے _کیونکہ سائنسدان اور فلسفی ہونے کے باوجود ارسطو کے دل میں ادب کی محبت تھی _اس وقت کا زائدہ ادب شاعری کی صورت میں تھا جبکہ افلاطون جو کے ارسطو کا استاد تھا شاعری کو اپنی مثالی ریاست سے خارج کر چکا تھا _ارسطو نے شاعری کو اس کا مقام دلایا اور یہ بات ثابت کی کے شاعری بیکار اور فضول نہیں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ارسطو نے استقرائی اور استدلالی طریقہ اختیار کیا _اس نے اجزاء کو بنیاد بنا کر ادب کی بحیثیت کل خقیقت سمجھنے کی کوشش کی اور ادب کی ماہیت کو اس کے فنی اور فطری عناصر کے حوالے سے تجزیاتی انداز میں پرکھا _جس صنف کو ارسطو نے اپنا محور تنقید بنایا وہ "المیہ" تھا_"المیہ" کے بارے میں کی گی تمام بحث "ارسطو کے المیہ" کے نام سے موسوم ہے_

ارسطو کے "تصور المیہ" کو اس کے تمام نظریات میں اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ ارسطو کی بحث کا نچوڑ ہے_جس میں ارسطو ادب عالیہ کی وضاحت کرتا ہے اور ادبی اصول و ضوابط متعین کرتا ہے جس طرح ارسطو کے تصورات میں "تصور المیہ" سب سے اہم ہے اسی طرح "تصور المیہ" تنقیدی داستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے_ارسطو تمام اصناف کو پرکھنے کے بعد المیہ کو اپنے تنقیدی نظریات کے لئے منتحب کرتا ہے_ارسطو کا مقصد ادب پر تنقید کرنا تھا_جس کے لئے اس نے ایسی صنف کا انتخاب کیا جس میں باقی اصناف کی خوبیاں بھی موجود ہوں_تاکہ اس ایک صنف کے لئے متعین کے گئے اصول تمام اصناف کا اخاطہ کر سکیں _"المیہ" ہی ایک ایسی صنف تھی جو ارسطو کے  مطالبات کو پوراکرتی  تھی_اس لئے ارسطو نے المیہ کے ذریعے ادب پر تنقید کی_ارسطو کے تصور المیہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے_پہلے حصے میں ارسطو المیہ کی تعریف کرتا ہے دوسرے حصے میں اس کو مختلف عناصر میں تقسیم کر کے ہر عنصر کا جائزہ لیتا ہے اور تیسرے حصے میں المیہ کا مقابلہ ادب کی دوسری اصناف سے کرنے کے بعد المیہ کی عظمت کو ثابت کرتا ہے_



About the author

160