اسی سوچ کے تحت ہم نے اس تحریر کو قرطاس پر منتقل کیا ہے جس میں تھوڑی بےباکی محسوس ہو سکتی ہے لیکن یہ موضوعاتی مجبوری ہے اور قابل توجہ پہلو یہی ہونا چایئے کہ ڈھلتی عمر کی یہ خواتین کسی وجہ یا وجہ کے بغیر اپنی زندگی کو اس روایتی ڈھب پر لانے میں کیوں ناکام ہیں جس کا تعین اکثریت کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں ہے ۔
شادی کے بارے میں ہمارے ہاں ہی نہیں مغربی معاشرے میں بھی بڑے متضاد خیالات پائے جاتے ہیں شادی کرنے اور نہ کرنے کے بارے میں بھی اور ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے سے بھی لیکن یہ بات اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت رکھتی ہے کہ یہ سو فیصدی قسمت کا کھیل ہے جس میں کوئی کامیاب رہتا ہے اور کوئی ناکام ، کوئی اس کے شکنجے میں جلد جکڑا جاتا ہے اور کوئی تاخیر سے اور اس تجربے سے گزرنے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔ مشرقی معاشرے میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کو زیادہ گمبھیرصورتحال در پیش رہتی ہے جو کہ بڑھتی ہوئی عمر یا گزرتی جوانی کے خوف میں مبتلا رہتی ہیں لیکن معاشرے میں رہتے ہوئے انہیں بعض دوسری الجھنوں سے بھی دامن چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے اور جب وہ عمر کے ایک ایسے حصے میں داخل ہوتی ہیں ۔
جہاں 30 کاہندسہ 40 کے ہندسےکی طرف بڑھنے لگتا ہے تو عام زندگی کی تمام تر کامیابیاں اور خوشیاں بھی اس شادی شدہ ہونے کے المیہ پر حاوی ہونے میں ناکام رہتی ہیں ۔ شادی نہ ہونے کی وجوہات خواہ کچھ بھی رہی ہوں لیکن ایسی خواتین ایک کسک سی دل میں لئے پھرتی ہیں اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آتا ہے یہاں تک کہ والدین بھی اپنی کوششیں ترک کر کے اسے بیٹی کی تقد یرمان لیتے ہیں ۔
یہ فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ آخر وہ بھی ایک انسان ہے جس کے پاس سوچنے سمجنے کی صلاحیت اور جذبات بھی ہیں ۔ میں یہاں جو قصہ یا کہانی بیان کر رہا ہوں اس کا مرکزی کردار 35 سالہ ایک خاتون ہیں جو بد قسمتی سے ایک ناگہانی حادثے کی بناء پر اس وقت گھر بسانے سے محروم ہو گیئں جب ان کے لئے یہ کوئی وقت طلب کام نہ تھا مگر آج وہ جس دوراہے پر کھڑی ہیں وہاں میں معاشرے کی ان گنت خواتین کو کھڑا دیکھ رہا ہوں ۔