جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف قرارداد

Posted on at


جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف قرارداد

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ۔ بالآخر مذہبی جماعتوں کو بھی جعلی پیروں اور عاملوں کے ہاتھوں معاشرے میں پھیلتی تباہ کاریوں اور انسانیت سوز ہلاکت خیزیوں کا اندازہ ہو ہی گیا۔ جس کا اظہار جماعت اسلامی پنجاب کے امیراور پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر سید وسیم اخترکی جانب سے پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں جعلی پیروں اور عاملوں کے خلاف جمع کرائی گئی قرارداد میں ہوتا ہے ۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ معاشرے میں جعلی پیروں ، عاملوں اور جادوگروں کا کاروبار اور ہتھکنڈے اپنے عروج پر ہیں جو معاشرے کے لیے ناسور بن چکے ہیں ، حکومت ان ناجائز ہتھکنڈوں کے خلاف جامع انداز میں قانون سازی کرے تاکہ اس مکروہ دھندے کا سدباب ہوسکے اور عوام اس ناسور سے نجات پاسکیں ‘‘ ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ پہلی بار کسی مذہبی جماعت نے اور وہ بھی ایک ایسی جماعت جو ملک کی سب سے بڑی دینی جماعت ہونے کا اعزاز رکھتی ہے کی جانب سے اس انتہائی سنگیں نوعیت کے معاشرتی و سماجی مسئلہ پر توجہ دی گئی ہے ۔ اس سے قبل عوامی سطح پر چند حلقوں میں اس معاملہ پر تشویش پائی جاتی رہی ہے اور چند دائیں بازو کے اخبارات سمیت اہل قلم اور صحافتی حلقوں میں بھی اس معاشرتی ناسور کے خلاف کافی کچھ کہا اور لکھا گیا ۔ لیکن مقتدر حلقوں اور ذمہ دار اداروں کے کان پر جونک تک نہ رینگی ۔ نہ سنجیدگی سے اس مہلک معاشرتی ناسور کو جڑوں سے اکھاڑنے کے حوالے سے عملی اقدامات اٹھائے گئے ۔ 2012ء میں بھی پنجاب اسمبلی میں ایک قرارد اس حوالے سے پیش کی گئی جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی عظمیٰ بخاری کی جانب سے پیش کی گئی تھی ۔ جس کے نتیجے میں پانچ رکنی کمیٹی قائم کی گئی لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہ آسکی اوروہ شور شرابہ جو لاہور کے ایک قبرستان میں ایک بچے کو زندہ دفن کرکے اس کی قبر پر بیٹھ کرچلہ کرتے ہوئے طوطی شاہ نامی پیر کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا ۔ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور ان عناصر کے خلاف جو غم و غصہ عوام الناس میں پید ہوا تھا وقت کے ساتھ تھم گیا ۔ جس کے بعد نہ تو قرارداد کا کچھ پتہ چلا اور نہ ہی پانچ رکنی کمیٹی کی سفارشات سامنے آسکیں ۔ جس کے نتیجہ میں یہ شیطانی نیٹ ورک پھیل کر پہلے سے بھی چارگناہ زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوا ۔نتیجتاً آج قوم کو یہ دن دیکھنا نصیب ہوئے۔ اگر اس وقت ان عناصر کے خلاف کوئی قانون بن جاتا تو آج مری میں تین معصوم بچوں کو اس قدر بے دردی سے ذبح نہ کیا جاتا ۔ ان جیسے ہزاروں بچے جن کی داستان ِ بے رحم کسی کے کانوں تک بھی نہ پہنچ سکی روز اس شیطانی صنعت کی بھینٹ چڑھتے ہیں ۔ آئے روز ہسپتالوں ، پبلک مقامات اور دیگر ذرائع سے اغواء ہونے والے بچے اس بات کا ثبوت ہیں ۔ کیا ان معصوم بچوں کا خون ذمہ دار حلقوں ، مذہبی جماعتوں ، قانون ساز اداروں ، اسلامی نظریاتی کونسل اور ایوان اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں کے ذمہ نہیں ہے؟ ۔ کیا مری میں بے دردی سے زبح ہونے والے بچے کل روز قیامت حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر عیاشیاں کرنے والے حکمرانوں سے نہیں پوچھیں گے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں ہمیں کس جرم کی سز ا دی گئی ـ؟۔ کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ طاغوت کے پجاری ، شیطانی تہذیب کے باطل عامل اور پنڈت اخباروں میں سرعام کفر وشرک کی تبلیغ کرتے پھریں اور جب چاہیں انسانی زندگیوں کے ساتھ گھناؤنے کھیل کھیلیں ؟مذہبی جماعتوں اور دینی حلقوں سے نہیں پوچھا جائے گا کہ قرآن و حدیث میں واضح طور پر جادوگروں کو کافر قرار دیے جانے اور اسلامی شریعت و قوانین میں باقاعدہ ان عناصر کے خلاف سزا مقرر ہونے کے باوجود کس جواز کے تحت انہیں ماؤں کے لخت جگرگوشوں کے گلے کاٹنے کی اجازت دی گئی؟ ۔ اسلامی نظریاتی کونسل سے نہیں پوچھا جائے گا کہ کونسی سی چیز جادوگروں کے خلاف اسلامی قانون کے نفاذ کی جدوجہد میں مانع ثابت ہوئی ؟
پہلی قرارداد تو ایک خالصتاً سیاسی جماعت کی جانب سے پیش کی گئی تھی چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی قرارداد تھی ، سیاسی مصلحتوں کی نذر ہوگئی ۔ یا دیگر کئی مفادات آڑے آسکتے ہیں ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔ اس وقت مذہبی جماعتوں اور دینی حلقوں نے اپنا کردار اداکیوں نہ کیا ؟۔ ان کے ہوتے ہوئے قرارداد پیش ہوئی پھر سفارشات لانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ یہ کام جو مذہبی جماعتوں اور دینی حلقوں کا تھا کہ وہ اس ضمن میں تحریک پیش کرتے ، پرزور مہم چلاتے ۔ بجائے اس کے ایک سیاسی جماعت نے قدام اٹھایا ۔ مگر اس کے بعد بھی دینی حلقوں نے عمل درآمد کرانے کے لیے کمیٹی کا پیچھا کیوں نہ کیا ؟ ۔آج تک کسی نے بھی اسمبلی میں یہ آواز کیوں نہ اٹھائی کہ اس قراردادکا کیا ہوا ۔ عوام الناس کا مذہبی ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی استحصال عروج پر ہے ۔ کمیٹی سفارشات کیوں نہیں لارہی ؟۔

 

خیر اب ایک مذہبی جماعت نے یہ قدم خود اٹھایا ہے ۔ قرارداد جمع کرادی گئی ہے ۔ لیکن خطرہ یہ ہے کہ اب بھی یہ قرارداد پاس نہ ہوئی یا اس پر عمل دارآمد نہ ہوا۔ جادوگروں کے خلاف قانون نہ بن سکا تو پھر اس کی ساری ذمہ داری دینی جماعتوں اور مذہبی طبقے کے سر جائے گی ۔ اور پھر معاشرے میں پھیلنے والی تمام تر تباہی و بربادی کا ذمہ دار مذہبی طبقے کو ہی کہا جائے گا ۔ پھر جتنے معصوم بچوں کے گلے کاٹے جائیں گے ، جتنی بے گناہ زندگیاں تلف ہونگی ، جتنے گھر اُجڑیں گے ۔ جتنی عصمتیں پامال ہونگی اور جتنے لوگ کفر وشرک کی اس دجالی دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے ان سب کا ہاتھ کل مذہبی جماعتوں کے راہنماؤں اور دینی و تبلیغی جماعتوں کے ذمہ دار وں کے گریبان پر ہونگے ۔ اور سب سے بڑی اور خطرناک بات یہ ہوگی کہ کفر وشرک اور باطل کے پجاری ، انسانیت کے قاتل ان شیطانوں کو انسانیت اور معاشرے کے ساتھ شیطانی کھیل کھیلنے کا کھلا سرٹیفیکٹ مل جائے گا اور اس طرح یہ معاشرہ تباہی و بربادی کی کس نہج پر پہنچ جائے گا اس کا اندازہ بھی کرنا مشکل ہے ۔ جس کا ذمہ دار صرف مذہبی طبقہ اور دینی جماعتیں ہونگی ۔

 


اس لیے وقت اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ قرارداد پیش کردی گئی ہے ۔ اب اس قرارداد کو ہر صورت پاس کرانے اور اس پر عمل درآمد کراتے ہوئے اسلامی شریعت کے مطابق جادوگروں اور جعلی عاملوں کے خلاف قانون سازی کو ہر ممکن یقینی بنایا جائے ۔ مذہبی جماعتیں اور دینی حلقے آپس کے تمام تر اختلافات اور جھگڑے ایک طرف رکھتے ہوئے اس اہم قومی نوعیت کے مسئلہ کے حل کے لیے اکٹھے ہوجائیں اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر یک سوئی کے ساتھ اس قرارداد کو پاس کرانے کے لیے جدوجہد کو اپنا دینی فریضہ جانیں ۔ کیونکہ یہ ان کا کام ہے ۔ انہیں کو کرناہے اور اگر اس میں کوتاہی کی گئی تو آخرت میں تو پوچھ ہونی ہی ہونی ہے یہاں اس ملک میں بھی اب موردالزام انہیں کو ٹھہرایا جائے گا ۔ قرارداد پاس نہ ہونے یا اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں تمام تر ذمہ داری انہیں پر عائد ہوگی ۔ اس لیے مذہبی طبقہ اب اس کو محض قرارداد نہ سمجھے بلکہ اسے اپنے دینی فریضہ کے طور پر لے اور اس پر عمل درآمد کے لیے تمام تر افرادی و مادی وسائل کو بروئے کار لائے ۔
عام طور پر اس مسئلہ کو بعض عناصر اور قوتوں کی جانب سے یہ کہہ کر اُلجھا دیا جاتا ہے کہ’’ جعلی پیروں کے خلاف کیا قانون بنایا جائے جبکہ جعلی سازی ، دھوکہ دہی اور فراڈ کی دفعات پہلے سے آئین میں موجود ہیں ۔ ان کے علاوہ اور کوئی دفعہ ان پر لگ ہی نہیں سکتی ‘‘۔اور جب بات جادو ٹونہ کی کی جائے تو کہتے ہیں کہ ’’جادو ثابت کیسے ہوگا ؟ یا کسی عامل یا پیروغیرہ پر یہ الزام کیسے ثابت ہوسکتا ہے کہ اس نے جادو کرکے کسی کا کچھ جانی یا مالی نقصان کیا ہے ؟ ‘‘یہ وہ ابلیسی حربہ ہے جو بطور جواز ماضی میں بھی ان قوتوں کی جانب سے پیش کیا جاتا رہا ہے جو عرصہ دراز سے معاشرے کے ان ناسوروں کو Protect کرتی آئی ہیں اور جو دراصل نہیں چاہتیں کہ جادوگروں اور باطل عاملوں کے خلاف قانون سازی ہویا یہ کسی جرم کی پاداش میں پکڑے جائیں ۔ ان عناصر کے ہاتھوں انسانیت کے ساتھ شیطانیت کا کھیل جاری رہنے میں ان کے کیا مقاصد رذیلہ ہیں ؟ یہ ایک الگ اور بھیانک داستان ہے ۔ تاہم یہ باطل پروپگنڈا کرکے ان عناصر کے اصل جرم کو چھپانے کی ناپاک جسارت کی جاتی ہے اور یہی وہ دجالی حربہ ہے جو ان درندہ صف شیطانوں کو بڑے سے بڑے ،گھناؤنے اور سنگین جرائم میں بھی مکھن میں بال کی طرح بچا لے جاتا ہے اور اس طرح انسانیت کے یہ سب سے بڑے مجرم ہر بار بچ نکلتے ہیں ۔
یہ ملک اسلام کے لیے بنا تھا اوراسلام دین فطرت ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی چیز خلاف فطرت یا انسانیت اور معاشرہ کے لیے مضر ہواور اسلام میں اس کے خلاف قانون مقرر نہ ہو ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے قرآن و حدیث میں واضح طور پر جادوٹونہ کو کفر اور خارج از اسلام قراردیا گیا ۔ اسلامی معاشرہ میں جادوگروں کے خلاف باقاعدہ سزا نافذالعمل رہی ۔بجالہ بن عبدہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے لکھا کہ ہر ایک جادوگر مرد وعورت کو قتل کردو تو ہم نے تین جادوگرنیوں کو قتل کیا (بخاری)۔حضرت حفصہؓ پر ان کی لونڈی نے جادوکردیاتھا ،ان کے حکم کے مطابق اس لونڈی کو قتل کردیا گیا(موطاامام مالک )۔ حضرت جندب ؓسے مرفوع روایت ہے کہ خود حضورﷺنے فرمایا کہ جادوگر کی سزا یہ ہیکہ اسے تلوار سے قتل کردیا جائے (ترمذی)۔چاروں آئمۂ کرام نے بھی جادوگر کے فوری قتل کا فتویٰ دیا ہے۔یہ قانون صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ سابقہ اُمتوں میں بھی جادوگر کی سزا قتل ہی رہی ہے ۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کے وہ لوگ جو سامری جادوگر کے ساتھ مل گئے ان سب کو بھی قتل کردیا جانا قرآن مجید سے عیاں ہے ۔


یہ جتنے بھی جعلی پیر، فقیر ، ملنگ سادھو پجاری اور پنڈت ہیں ۔ ان کی تمام تر گمراہیوں اور شیطانی ٹوٹکوں کی بنیاد یہی جادو ہے یا پھر اسی جادو کے نام پر وہ فراڈ کررہے ہوتے ہیں ۔ جب جادو ٹونہ کے خلاف قانون سازی قوانین فطرت کے مطابق ہو گی تو نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری ۔جب جادو پر پابندی عائد ہوگی اور اس کے مرتکب کو وہی سزا ملے جو فطرت نے ان کے لیے مقرر کی ہے تو کم از کم اس مہلک شیطانی معاشرتی بیماری کا سدباب ہوسکے گا ۔ جس نے وقت کے ساتھ ساتھ تمام تر معاشرتی و اخلاقی اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ ڈالا ہے اور اگر اب بھی اس کا سدباب نہ کیا گیا تو اس موذی کینسر سے نہ کوئی گھر محفوظ رہے گا اور نہ کوئی فرد اس دجالی تہذیب کی تباہ کاریوں سے بچ پائے گا ۔ جوں جوں دجال کا زمانہ قریب آرہا ہے ۔ یہ دجالی ہتھکنڈے اور حربے بھی اسی قدر تیز تر ہوتے جارہے ہیں ۔ جن کے خلاف لڑنے کا حکم بھی مسلمانوں کو دیا گیا ہے ۔ لہٰذا مذہبی جماعتوں اور دینی حلقوں کو ابھی سے اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دینا چاہیے ۔ جس کی ابتداء اس قرارداد پر عمل درآمد سے ہو سکتی ہے ۔



About the author

BeinG

I'm just different. Don't judge me until you know me. Don't underestimate me until you challenge me. And don't talk about me until you talk to me. Don't worry about me or what I do. Everything I'm not makes me everything I'm. What you see is what you get. Take…

Subscribe 0
160