رشتوں کی ڈور ۔۔۔۔۔۔محبت کی اساس

Posted on at


رشتوں کی ڈور ۔۔۔۔۔ محبت کی اساس

 

ہر تعلق اور رشتہ نبھانے سے نبھتا ہے۔ آج میں جس موضوع پر لکھنے جا رہا ہوں وہ ہمارے معاشرے کا سنگین مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ وہ ہے سا س اور بہو کا مسئلہ۔

ساس اور بہو کے جھگڑے اگر وقت پر نہ نمٹائے جائیں تو سنگین صورتحال اختیار کرجاتے ہیں۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ خواتین  اپنے طور پر خوش فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ بہنیں ہوں ، ماں بیٹی ہوں ، نند بھابھی ہوں یا پھر ساس بہو اکثر ان رشتوں میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے۔ بہو اگر خود کو مظلوم سمجھ لے تو اسے ہر شخص خاص طور پر ساس اپنی دشمن لگتی ہے۔ دراسل ہماری سوسائٹی لڑکیوں کی سوچ اور ان کے کردار کو اسی انداز میں ڈھالتی ہے۔ ایک مفکر کے بقول رشتوں کی مٹھاس برقرار رکھنے کے لئے انہیں ناموں (ماں ، خالہ ، ساس) سے آزاد کردینا چاہئے یعنی اگر بہو ساس کو ماں سمجھ لے تو گھر میں امن وامان رہےگا۔ ساس بھی بہو کو بیٹی مانے تو اس کے قریب ہو سکتی ہے۔ اصل حقائق یہ ہیں کہ نئی اور پرانی نسل کے مابین حائل یہ دیوار بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ معاشرتی اقدار بھی اب تک وہی ہیں یہاں خاندانی جھگڑوں سے نمٹنا اور اس کے بعد کے نتائج پورے خاندان کو ملیا میٹ کردیتے ہیں۔ مرد کو گھر کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہے اور عورت کو گھراور چار دیواری تک محدود رہنے کی آج بھی نصیت کی جاتی ہے۔ رشتہ چاہے کوئی بھی ہو اس کے اثرات ایسے ہونے چاہئیں کہ سب خوش رہیں۔ یہ رشتے اور تعلقات ہی تو ہوتے ہیں جو سب کے لئے اچھے یا بُرے تلخ یا خوش کن تجربات بناتے ہیں۔ یاد رکھیں رشتوں کو بوجھ نہیں بنانا چاہیئے۔ خوشی کے لمحات جتنے بھی ملیں انہیں مٹھی میں بند کرلیں۔ جو تعلق خوشی ، دلچسپی اور اعتماد سے خالی ہوتا ہے اُسے نبھاتے نبھاتے زندی تو کٹ سکتی ہے مگر آپ خوش نہیں رہ سکتے۔ خوش کن تعلقات بھی خود بغود نہیں بن جاتے بلکہ انہیں بنانے اور پھر قائم رکھنے کے لئے بھی سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام جہاں مختلف شخصیتوں ، ضرورتوں اور مفادات وغیرہ کا ٹکراؤ ہوتا ہے ایسے گھرانوں میں تعلقات بننے اور بگٹرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگتا۔ نیو کلیئر خاندانی نظام کو اگر آج کی نسل مثالی مانتی ہےتو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں کیونکہ بسا اوقات بڑے ہی غلطی کر جاتے ہیں۔ اب یہ خیال عام ہو چکا ہے کہ گھر میں جتنے کم افراد ہوں گے اسی قدر سکون اور خوشیاں ہوں گی۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے ہم نیو کلیئر فیملی سسٹم کو تو بخوشی اپنا لیا ہے مگر یہ نہیں سوچا کہ اس کا بچوں پر کیا اثر بڑے گا۔ بہو ، ساس ، نند ، دیورانی اور جھیٹانی سے الگ رہ کر خود تو سکون کا سانس لے لیتی ہیں مگر بچوں کو دادا ، دادی ، پھپو ،چچا اور ایسے دوسرے رشتوں کی گرمجوشی اور اپنائیت سے محروم کردیتی ہے۔ ساس بہو کے جھگڑے کا اصل محور اختیارات کی تقسیم ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ساس بہو کے رشتے میں دونوں فریقین کے اپنے موقف ہوتے ہیں یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک فریق حاوی تو کبھی دوسرا زیر۔ میا ں صاحب اگر سارا دن آفس میں سر کھپاتے ہیں تو خاتون خانہ بھی گھر کے جھمیلوں اور رشتے داریوں کو نھباتی ہیں۔ مگر خواتین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ میاں صاحب انہیں وقت نہیں دے رہے وہ سارا دن ان کے گھر والوں کی خدمت کرتی ہیں ان سے دور رہتی ہیں اور جب وہ گھر آتے ہیں تو ساس صا حبہ کو بیٹے کے حقوق یاد آجاتے ہیں۔  ماہر سماجیت کہتے ہیں کہ یہ ایک سائیکل ہے جو ہمیشہ سے یو ں ہی چل رہا ہے۔

میڈیا کی آزادی نے بہت سے پو شیدہ معاملا ت کو براہ راست لوگوں کے سامنے کھول دیا ہے آج ہر گھر میں کیبل ہے جہاں پڑوسی ممالک کے ڈراموں اور فلموں نے متوسط اور نچلے طبقے کی خواتین کو بہت متاثر کیا ہے۔ انہوں نے رشتوں کی نزاکتوں اور احساسات پر کہانیاں بنا کر سماج کا منظر نامہ بدل دیا ہے۔ ساس بہو کے رشتے کی انفرادیت یہ ہے کہ دونوں خواتین خود کو مظلوم ظاہر کرتی ہیں اب ایسے میں حالات اکثر قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ حقیقت جو بھی ہو مگر کسی بھی فریق کو اسے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیئے۔ یہ انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے رشتے جُوڑنے کے بجائے ٹو ٹنے لگتے ہیں اور آخر کار بکھر جاتے ہیں۔

گھروں کی تربیت کے ساتھ ساتھ اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی سطع پر بھی طلباء کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور مثبت طرز فکر اختیار کریں۔ ہر رشتے کو سنبھالنے کی ذمہ داری صرف عورت پر نہیں ڈالنی چاہیئے چاہے وہ کسی بھی رشتے میں بندھی ہو نہ ہی مرد سے یہ توقع رکھنی چاہیئے کہ وہ سب درست کردے گا۔ رشتے میں شامل اونچ نیچ باہمی محبت سے دور کی جاسکتی ہے۔ ہر رشتے اور تعلق میں تمام فریقین کو اپنی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ یہ صرف کسی ایک انسان کی کوشش سے نہیں بنتے نہ بگڑتے ہیں۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160