بازار میں چلتے ہوئے دیکھا کہ ایک جوان ایک کاغذ کے ٹکڑے کو اٹھاتا ہے اسے چومتا ہے اور احترام کے ساتھ بجلی کے کھمبے کے ساتھ لگے بکس میں ڈال دیتا ہے۔ میں کچھ دیرکھڑا رہا اور اس کی عقیدت اور احترام کے جذبے کو دیکھ کر رشک کرنے لگا۔ میں آگے بڑھا اچانک چلتے ہوئے راستے میں پاؤں میں کسی چیز کے چبھنے کا احساس ہوا،میں نے نظر نیچے کرکے دیکھا تو نعلین پاک کی شبیہ والا بیج جوتے کے نیچے تھا،فوراً جھکا اور عقیدت اور احترام سے صاف کرکے ہاتھ میں تھام لیا،لیکن، بہت سے سوالات جنم لینے لگے۔ میں واپس گھر آکر کافی دیر تک سوچتا رہا کہ ہمارا کیا بنے گا؟ ہمارا انجام کیسے ہوگا؟ ہم مقدس اوراق کی تعظیم کرتے ہیں مگر کیوں؟ کیونکہ ان اوراق کا تعلق قرآن یا فرمان رسول سے ہے،ایک صاف کاغذ پڑا ہو ہم اسے نہیں اٹھائیں گے اگر اس پر آیت لکھ دی جائے وہ کاغذ مقدس ہو جائے گا کیوں کہ اس کی نسبت اعلیٰ ہوگئی۔ تو وہ پلاسٹک یا کپڑے کا ٹکڑا بے کار تھا مگر جب ہم نےاس کی نسبت اعلیٰ چیز سے جوڑی وہ ٹکڑا اب عام ٹکڑا نہیں رہا بلکہ مقدس ہوگا۔ تو کیوں ہم ایسا کرتے ہیں ،ایک دن اس ٹکڑے کو مقدس بناتے ہیں اور پھر اس کو بھول جاتے ہیں۔ ہمیں تو شاید عشق کرنا بھی نہیں آتا۔ عشق میں صرف ذات کا احترام نہیں بلکہ نسبتوں کا تقدس بھی لازمی ہے، ایسا تو نہیں کہ ہم نے عشق رسول کو بھی کاروبار بنا لیا ہے؟ اللہ رب العزت کے ہاں اسی فرد کا مقام ہے جو عشق کے طور طریقوں سے بھی آشنا ہے،چاہے اس فردکا تعلق کسی بھی فرقے اور مسلک سے ہو۔۔ ہمیں ہر اس چیز کا احترام کرنا ہے جس کا تعلق اللہ رب العزت یا رسول اکرمﷺ کے ساتھ ہو، چاہے وہ کاغذ کا پرزہ ہو یا پلاسٹک کا ٹکڑا۔۔
(تحریر۔۔محمد عثمان
انتخاب ۔۔۔۔۔۔۔ھیر شاہ