اپنی آگ میں جلا ہوں میں
وہ سمجھتے ہیں کہ دیا ہوں میں
خواب میں ہوں کہ جاگتا ہوں میں
میں دیکھا کہ ریت پر لکھے
نام کی طرح مٹ رہا ہوں میں
میں دیکھا کہ اک طلسماتی
عمر کی قید کاٹتا ہوں میں
اپنے چلو سے درد کا دریا
کتنی مدت سے پی رہا ہوں میں
پھر مرا ہاتھ مجھ سے چھوٹ گیا
بھیڑ میں پھر بچھڑ گیا ہوں میں
لمس تیرا عزیز ہے لیکن
آج تو خود سے چھو گیا ہوں میں
آج کیوں مجھ کو میری یاد آئی
یوں تو صدیوں سے لاپتہ ہوں میں
دھوپ میں ریگ زار میں جا کر
خود کو ہر روز ڈھوڈتا ہوں میں