صبر و تحمل

Posted on at


صبر و تحمل


صبر کے لغوی معنی ہیں کسی چیز سے رک جانا اور بردازت کرنا، اور تحمل کے معنی بھی برداشت کرنا اور بردباری کے ہیں۔


      


شرعی اصلاع میں صبر و تحمل کے معنی نیک عمل پر دوام، گناہوں سے پرہیز، مصائب وتکالیف کا برداشت کرنا، دل کو  خوف اور گھبراہت سے دور رکھنا حتیٰ کی خوشی کے موقع پر بھی فخرو غرور اور بے قدری سے بچنا اور ہر حالت میں دل کو مضبوط رکھنا ہے۔


صبر و تحمل کی اہمیت


            قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں صبر و تحمل کو بہت پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔


                    


 صبر و تحمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت کا اہم جزو ہے اور صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کا محبوب کیا گیا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔


ارشاد باری تعالیٰ ہے۔


ترجمہ۔    اور اللہ صبر کرنے والوں(ثابت قدم رہنےوالوں) کو محبوب رکھتا ہے۔


صبر کرنے سے مشکلات آسان ہو جاتی ہین ۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو نماز اور صبر کی طرف رگبت دلائ ہے۔


اللہ پاک فرماتا ہے۔


            ای ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو بے شک اللہ کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔


سورۃ العصر میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہر انسان خسارے میں ہے لیکن وہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد نیک عمل کرتے ہیں اور آپس میں حق کی تلقین کرتے ہیں ایک دوسرے کو سبر کی تلقین کرتے ہیں وہ لوگ خسارے سے نکل جاتے ہیں۔


 


اسی بنا پر مسلمان کو صبر کو اس طرح اپنا لینا چاہئے کہ وہ اس کے اندر بلا تکلف رچ بس جائے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ صبر خود کو روکنے اور برداشت کرنے کو تو کہتے ہیں لیکن اس کا معنی بے بسی اور بے کسی اور اور کسی مجبوری کی وجہ سے انتظام نہ لے سکنا نہیں ہے۔ صبر تو دل کی مضبوطی، اخلاقی جرات اور ثابت قدمی کا نام ہے۔


ارشاد باری تعالیٰ ہے۔


                        "صبر کرو جیسا کہ صاحب عزم رسولوں نے کیا"۔


آئے اب دیکھتے ہیں قرآن پاک صبر کے متعلق کیا کہتا ہے۔


                              


ہر مصائب کی تکلیف برداشت کرنا اور اپنے مقصد پر جمے رہ کر کامیابی کا انتظار کرنا۔ مصائب اور مشکلات میں بے قراری اور اضطراب سے بچنا


 


۔ مقصد کے حصول کی راہ میں آنے والے خطرات، دشمنوں اور مخالفین کے طعن و طنز کو خاطر میں نہ لانا۔ برائ کرنے والے کی برائ اور بدخواہی کے باوجود معاف کرنا، برد باری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا۔  میدان جنگ میں ثابت قدمی اور بہادری رکھنا۔


صبر اور تحمل اور آپؐ۔


            نبی اکرمؐ کی ذندگی میں ہمارے لئے صبر و تحمل کا بہترین نمونہ ملتا ہے آپؐ اعلان بعثت سے پہلے مکہ مکرمہ کی پسندیدہ شخصیت کے طور پر جانے جاتے رہے۔ آپؐ کے اعلیٰ اخلاق نے ہر ایک کو آپؐ کا گرویدہ بنا دیا۔ آپؐ کو مکہ ے لوگ صادق اور امین کے لقب سے پکارنے لگے۔


 


لیکن اعلان نبوت فرماتے ہی کفار آپؐ کے خلاف ہی گئے، آپؐ کو جھٹلایا گیا، مذاق اڑایا گیا اور طرح طرح سے آپؐ کو ستایا گیا۔ آپؐ کع مجنو اور دیوانہ قرار دیا، کنکروں اور پتھروں سے زخمی کیا گیا مگر ان تمام تکالیف کے باوجود آپؐ نے صبر و تحمل سے دعوت دین کا کام آگے بڑھایا۔


 


       


 


 ہمیں چاہیے کہ ہم اسوۃ حسنہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روشنی میں صبر کی خوبی کو اپنائیں اور ہرقسم کی جسمانی آزمائشوں پر صبر کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رضا پالیں اور زندگی کے ہرمیداں میں کامیابی حاصل کریں۔  


مزید اچھے بلاگ پڑھنے کیلۓ یہان کلک کری


مجھے سبسکرائب کرنے کیلۓ یہان کلک کریں۔ 



About the author

Haseeb9410

I want to share my ideas , and became a best writer.

Subscribe 0
160