کاروکاری - غیرت کے نام پر خواتین کا قتل

Posted on at


پاکستان کے تقریباً تمام علماء اکرام و مشائخ اس بات پر متفق ہیں- حد قائم کرنا، اور اس کی سزا دینا قرآن، حدیث اور سنت کے عین مطابق یہ ملک میں موجود شرعی عدالتوں کا کام ہے، کسی علاقے کے حاکم، خاندان کے سربراہ، بزرگ یا علاقے میں موجود کوئی قابل احترام شخص، کسی کو حد قائم کرنے کا اختیار نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس کی سزا دے سکتا ہے



اس سب کے باوجود پاکستان میں خواتین کی زندگی آسان نہیں ہے، انہیں ہر روز جنسی تشدد، عصمت دری، مانی، ونی، سوارا اور کارو کاری جیسی رسموں اور رواجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے- ان میں سے کچھ کو تو سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں- انہی میں ایک رسم کارو کاری ہے، کارو کے لفظی معنی کالا ہے اور کاری کے معنی کالی- مطلب بدکاری، اپنی مرضی کے مرد سے شادی کرنے والی لڑکی کو کاری قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہے- یہ رسم زمانہ قدیم سے بلوچوں میں چلی آرہی ہے وہ بدکار عورتوں اور مردوں کو کارو کاری کر کے سزا دیا کرتے تھے- جہاں جہاں بلوچ گئے وہ اپنے ساتھ اپنی اس رسم کو بھی لے گئے اب یہ رسم بلوچستان سے نکل کر جنوبی پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی پھیل چکی ہے- کارو کاری کا فیصلہ جرگے (علاقے کے بزرگ اور قابل احترام لوگوں کو کونسل) میں کیا جاتا ہے، جرگے کے فیصلوں میں زیادہ تر 70 فیصد عورتیں اور 30 فیصد مرد اس وحشیانہ رسم کا شکار ہو جاتے ہیں اور قتل کر دیئے جاتے ہیں- پاکستان میں جہاں خواتین کو غیرت کے نام پر بناے گئے قوانین پر سختی سے عمل کرنا پڑتا ہے، ایک چھوٹی سی غلطی یا شک اسے اپنے شوہر، بھائی، باپ یا خاندان والوں کے ہاتھوں قتل کروا سکتا ہے


ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال لگ بھگ پانچ ہزارلڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے - کاری کی گئی لڑکیوں کو انتہائی سفاکانہ طریقوں سے قتل کیا جاتا ہے، بعض اوقات تو انہیں پوری کمیونٹی کے سامنے کتوں کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے تاکہ دوسرے لوگوں کو ڈرایا جا سکے یا پھر اجتماعی عصمت دری کے بعد ان کے سر کو مونڈھ کر ان کے چہرے اور سر کو کالا کر دیا جاتا ہے اور پھر پوری کمیونٹی کے سامنے انہیں قتل کر دیا جاتا ہے- کچھ واقعات ایسے بھی سامنے آے ہیں جہاں لڑکی کو قتل نہیں کیا گیا بلکہ بدلے کے طور پر ان کی ناک کاٹ دی گئی- خاندان یا کمیونٹی میں سے کسی کو بھی ناک کاٹ دی جانے والی لڑکی سے کوئی رشتہ رکھنے یا بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی- ایسی ناک کاٹ دی جانے والی لڑکیاں زندہ تو رہتی ہیں لیکن اپنی باقی زندگی جانوروں سے بھی بدتر گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہیں



قانون کے مطابق کاروکاری قتل کے زمرے میں آتا ہے اور جو شخص اس میں ملوث پایا جاتا ہے اسے قانون کے مطابق سات سال جیل کی سزا یا پھر پھانسی کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے- ایک این جی او کے مطابق آج تک صرف 25 فیصد مجرموں کو ہی سزا دی جا سکی ہے- ایسے لوگوں کو سزا نہ ملنے کے بہت سے عوامل ہیں ان میں سے ایک تعلیم کی کمی ہے، ناخواندگی کی وجہ سے ہمارا بیشتر معاشرہ اس رسم کے خلاف نہیں بولتا، کچھ لوگ خوف سے اور کچھ لوگ اس رسم کو حق پر سمجھتے ہوۓ اس عمل میں شامل لوگوں کا نام سامنے نہیں لاتے


حال ہی میں ایک کارو کاری کا واقعہ سامنے آیا جب شکارپور میں جرگے کے فیصلے پر دو لڑکیوں کو کارو کاری کے نام پر قتل کر دیا گیا- ان دونوں لڑکیوں نے اپنی مرضی کے مردوں سے شادیاں کی تھیں، جرگے نے ان کے مردوں کو ان کے ساتھ دینے، اور جرمانہ کے طور پر ان دو لڑکیوں کے خاندان والوں کو چوبیس لاکھ ادا کرنے کا حکم سنایا، نہ دینے کی صورت میں لڑکیوں کی طرح قتل کر دیا جائے گا- یہاں ایک بات غور طلب ہے یہ جرگہ رکن پارلیمنٹ غوث بخش مہر صدارت میں کیا گیا تھا




 



About the author

160